امریکی ارب پتی اور ٹیکنالوجی کی دنیا کے شہنشاہ ایلون مسک ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گئے، لیکن اس بار وجہ کوئی کامیاب منصوبہ یا انقلابی ایجاد نہیں، بلکہ ایک سخت سیاسی محاذ آرائی ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اچانک ابھرنے والے شدید اختلافات نے نہ صرف ایلون مسک کی سیاسی حیثیت کو ہلا کر رکھ دیا، بلکہ ان کی دولت میں بھی ایک ہی دن میں 34 ارب ڈالر کی ریکارڈ کمی کردی جو دنیا کی تاریخ میں دوسری سب سے بڑی یومیہ کمی ہے۔
یہ تنازع ایک ایسے وقت پر کھڑا ہوا جب چند ماہ قبل تک مسک اور ٹرمپ کی قربت کو "سنہری دن” کہا جا رہا تھا۔ صدارتی انتخابات کے بعد مسک کی دولت 500 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی، لیکن اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ جمعرات کے روز جب ٹیسلا کے شیئرز 14 فیصد نیچے آئے تو سرمایہ کاروں میں کھلبلی مچ گئی اور یہ کمپنی کے ڈیڑھ ماہ کے دوران سب سے بڑا نقصان ثابت ہوا۔
صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کو کھلی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اربوں ڈالر بچانے کا آسان ترین طریقہ ہے کہ ایلون مسک کو دی جانے والی مراعات اور سرکاری معاہدے ختم کر دیے جائیں۔ان کے اس بیان نے مارکیٹ میں لرزہ طاری کر دیا، کیونکہ اگرچہ ٹیسلا کے پاس حکومت کے ساتھ کوئی براہِ راست بڑا معاہدہ نہیں، لیکن الیکٹرک گاڑیوں کے لیے ملنے والی بائیڈن انتظامیہ کی مراعات کا مستقبل اب خطرے میں ہے۔
سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال مسک کی خلائی کمپنی "اسپیس ایکس” کے لیے پیدا ہو گئی ہے، جو امریکی خلائی ادارے ناسا کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدوں کی حامل ہے۔ ٹرمپ کے بیانات کے بعد مسک نے اعلان کیا کہ کمپنی اپنے خلائی جہاز "ڈریگن” کو مرحلہ وار ختم کرنا شروع کر دے گی — حالانکہ یہی مشن بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک سامان اور خلا باز پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاسی تنازع کے باعث ٹرمپ کے حامی صارفین ممکنہ طور پر ٹیسلا سے دوری اختیار کر سکتے ہیں، جس سے کمپنی کی فروخت متاثر ہو سکتی ہے۔
ساتھ ہی، ایلون مسک پر سیاسی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت کرنے پر پہلے ہی تنقید ہو رہی ہے، جو اب ان کے کاروباری مفادات پر بھاری پڑنے لگی ہے۔
سوال یہ ہےکیا ایلون مسک کی ٹرمپ سے علانیہ محاذ آرائی صرف ایک وقتی جھٹکا ہے، یا یہ ان کے کاروباری سلطنت کے لیے طویل مدتی خطرہ بننے جا رہا ہے؟
ٹیسلا، اسپیس ایکس اور دیگر منصوبوں کا مستقبل اب صرف مارکیٹ سے نہیں، بلکہ سیاسی موسم سے بھی وابستہ ہو چکا ہے۔