واشنگٹن : دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے صدر اور متنازع بیانات کے ماہر، ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دنیا کی نظریں مقبوضہ کشمیر پر مرکوز کر دی ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ایک حیران کن اور معنی خیز بیان میں عندیہ دیا ہے کہ صدر ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان دہائیوں پر محیط مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے تیار ہیں بلکہ شاید اس تاریخی تنازعے کا حل اُن کی صدارت ختم ہونے سے پہلے ممکن ہو!
ہفتہ وار پریس بریفنگ میں جب ترجمان ٹیمی بروس سے سوال کیا گیا کہ کیا امریکی صدر انڈیا اور پاکستان کے دیرینہ تنازع کشمیر میں ثالثی چاہتے ہیں، تو اُن کا جواب بڑا واضح اور پرامید تھا،اس میں حیرانی کی بات نہیں، صدر ٹرمپ ایسے کسی بھی معاملے میں ثالثی کرنا چاہیں گے جو نسلوں سے حل طلب ہو۔
یہ بات اس وقت مزید توجہ حاصل کرتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ ماہ دونوں ایٹمی ہمسایہ ممالک کے درمیان شدید کشیدگی کے بعد صدر ٹرمپ نے مداخلت کر کے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جس سے خطے میں وقتی سکون ضرور آیا، مگر مسئلہ کشمیر جوں کا توں برقرار رہا۔
ترجمان بروس نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ محض بیانات نہیں دیتے بلکہ انہوں نے "ایسے لوگوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا ہے جن کے درمیان مکالمے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔”
یہ بیان صدر کی اس خود اعتمادی کی عکاسی کرتا ہے جو وہ بین الاقوامی ثالثی میں رکھتے ہیں اور جو دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیا واقعی واشنگٹن کشمیر کے بند دروازے کھولنے جا رہا ہے؟
مزید برآں، دفتر خارجہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ حال ہی میں بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ حکام، بشمول انڈر سیکریٹری برائے سیاسی امور ایلیسن ہوکر، سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔
ان ملاقاتوں میں نہ صرف دہشت گردی کے خلاف تعاون بلکہ پاک بھارت جنگ بندی اور کشمیر کی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا۔
ذرائع کے مطابق، پاکستانی وفد اس وقت دنیا کے اہم دارالحکومتوں کے دورے پر ہے، جہاں وہ بھارت کے ساتھ کشیدگی اور مسئلہ
کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے؟ کیا ٹرمپ واقعی امن کا پرچم بلند کریں گے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات آئندہ ہفتوں میں سامنے آئیں گے، مگر ایک بات طے ہے: کشمیر ایک بار پھر عالمی سفارتی منظرنامے پر چھا گیا ہے اور اس بار، ثالثی کی پیشکش وائٹ ہاؤس سے آئی ہے!