پیرس میں جاری بین الاقوامی ایئر شو کے دوران اسرائیل اور فرانس کے درمیان ایک غیر معمولی سفارتی کشیدگی اس وقت سامنے آئی جب فرانسیسی حکام نے اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیوں کے چار سٹینڈز بند کر دیے۔
اس اقدام کی بنیادی وجہ ان کمپنیوں کی جانب سے فرانسیسی سیکیورٹی اداروں کی ہدایات پر عمل نہ کرنا تھا، جنہوں نے نمائش سے مہلک اور جدید ہتھیاروں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
فرانس کی طرف سے بند کیے گئے سٹالز اسرائیل کی معروف ڈیفنس کمپنیاں "ایل بٹ سسٹمز”، "رافیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹمز”، "اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز (IAI)” اور "یوویژن” استعمال کر رہی تھیں۔ جبکہ چند چھوٹے اسرائیلی سٹالز، جن پر ہتھیار موجود نہیں تھے، اور اسرائیلی وزارت دفاع کا سٹینڈ بدستور فعال رہا۔
اس فیصلے نے نہ صرف اسرائیل کو ناراض کیا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں دراڑ کا اشارہ بھی دیا ہے، جو کہ طویل عرصے سے اتحادی تصور کیے جاتے ہیں۔
فرانسیسی مؤقف میں حالیہ مہینوں کے دوران واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے، خاص طور پر وزیراعظم نیتن یاہو کی زیر قیادت اسرائیلی حکومت کے غزہ میں فوجی آپریشنز اور دیگر بین الاقوامی مداخلتوں پر۔
اسرائیلی وزارت دفاع نے اپنے ردعمل میں اس فیصلے کو غیر منصفانہ، اشتعال انگیز اور واضح طور پر تجارتی و سیاسی مفادات پر مبنی قرار دیا۔ وزارت کے مطابق، فرانسیسی منتظمین نے رات کی تاریکی میں اسرائیلی پویلین کے ارد گرد ایک سیاہ دیوار کھڑی کر دی تاکہ اسے دیگر ممالک کے پویلینز سے الگ کیا جا سکے۔
اس دیوار نے اسرائیلی نمائندوں اور کمپنیوں کو اس وقت حیران کر دیا جب وہ اگلی صبح اپنے سٹالز پر پہنچے۔
وزارت دفاع کے مطابق، فرانس کی جانب سے یہ کہنا کہ خطرناک ہتھیاروں کی نمائش پر پابندی محض سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر لگائی گئی ہے، ایک بہانہ ہے۔
اصل میں، اسرائیلی ہتھیار اپنی ٹیکنالوجی اور معیار میں عالمی مقابلے کی فضا میں فرانسیسی اسلحہ ساز اداروں کے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں۔
اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز کے صدر اور سی ای او بوز لیوی نے فرانس کے اس اقدام کو تاریخ کے ایک تلخ باب سے جوڑتے ہوئے کہا کہ "یہ سیاہ دیواریں ہمیں ان سیاہ دنوں کی یاد دلاتی ہیں جب یورپ میں یہودیوں کو جان بوجھ کر معاشرتی طور پر الگ تھلگ کر دیا جاتا تھا۔ آج ایک جدید جمہوری یورپی ملک کی جانب سے اس طرح کا امتیازی سلوک انتہائی افسوسناک ہے۔”
فرانسیسی حکام کی جانب سے باضابطہ طور پر اس معاملے پر کسی ردعمل کا اعلان نہیں کیا گیا، تاہم ایک باخبر ذریعے نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی کمپنیاں سیکیورٹی ہدایت نامے کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئیں اور انہوں نے اپنی مصنوعات میں سے خطرناک ہتھیاروں کو ہٹانے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد یہ سخت اقدام ناگزیر ہو گیا۔
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب فرانس مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے ایک متوازن کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ساتھ ہی یورپی پالیسیوں میں اسرائیل کے خلاف سخت تر مؤقف اپنانے کی ایک نئی لہر بھی ابھر رہی ہے۔
اس معاملے نے دفاعی نمائشوں کے مستقبل، اسلحہ ساز کمپنیوں کے بین الاقوامی تعلقات، اور جغرافیائی سیاست پر مبنی دفاعی سفارتکاری پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
اسرائیل نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس قسم کی پابندیوں کو قبول نہیں کرے گا اور اسے ایک سوچی سمجھی کوشش کے طور پر دیکھ رہا ہے تاکہ اسرائیلی دفاعی ٹیکنالوجی کو عالمی سطح پر پسماندہ کیا جا سکے۔
یہ تنازعہ ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ اسرائیل اور فرانس ماضی میں دفاعی شراکت دار رہے ہیں، لیکن آج عالمی سیاست میں اصول، تشویش اور تجارتی مفادات کے درمیان کشمکش نئی شکل اختیار کر چکی ہے، جو کسی بھی وقت دیرینہ اتحادیوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا سکتی ہے۔