تقریباً دو برسوں سے جاری سفارتی کشیدگی کے بعد بالآخر انڈیا اور کینیڈا نے تعلقات کو معمول پر لانے کی سنجیدہ اور مؤثر کوششیں شروع کر دی ہیں، جنہیں دونوں ممالک کی قیادت کی جانب سے ایک "مثبت اور نتیجہ خیز پیش رفت” قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ پیش رفت اس وقت دیکھنے میں آئی جب کینیڈا کے نو منتخب وزیرِ اعظم مارک کارنی نے جی سیون اجلاس کے موقع پر انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔
البرٹا کے مقام پر ہونے والی یہ ملاقات دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلا براہ راست رابطہ تھی اور جس گرمجوشی سے کارنی نے مودی کا استقبال کیا، اس سے دوطرفہ تناؤ کی فضا کہیں نظر نہ آئی۔
یاد رہے کہ سابق کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کے دورِ حکومت میں دونوں ملکوں کے درمیان شدید تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب ستمبر 2023 میں ٹروڈو نے انڈین حکومت پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ کینیڈا میں مقیم ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں ملوث ہے۔
اس الزام نے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں زبردست دراڑ پیدا کر دی تھی۔ نتیجتاً، دونوں ملکوں نے نہ صرف ایک دوسرے کے سفیروں کو ملک بدر کیا بلکہ اپنے ہائی کمیشنز میں کام بند کر کے عملی طور پر سفارتی تعلقات معطل کر دیے تھے۔
تاہم، مارک کارنی کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ممالک کے بیچ ایک نیا باب کھلنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ کارنی اور مودی کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات نے اس امید کو مزید تقویت دی ہے۔
کینیڈین وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے سفارتی روابط بحال کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے اور اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جلد ہی نئے سفیروں کی تقرری عمل میں لائی جائے گی تاکہ باہمی معاملات کو ایک بار پھر بہتر انداز میں سنبھالا جا سکے۔
انڈیا کی جانب سے اس ملاقات کو سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ نئی دہلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ پہلے دن سے کینیڈا کے ساتھ پرامن اور تعمیری تعلقات کے خواہاں رہے ہیں، اور یہ ملاقات اس جانب ایک بڑا قدم ہے۔
انڈین حکومت نے پہلے ہی کینیڈا کے الزام کو سختی سے مسترد کر دیا تھا اور سکھ علیحدگی پسندوں کی کینیڈا میں موجودگی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
انڈیا کا موقف رہا ہے کہ کینیڈا ایسے افراد کو تحفظ فراہم کر رہا ہے جو انڈیا کی علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔
مارک کارنی نے ملاقات کے دوران انڈیا کے عالمی تجارتی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگرچہ انڈیا جی سیون کا باضابطہ رکن نہیں، پھر بھی وہ اسے ان اجلاسوں میں مدعو کرتے ہیں کیونکہ عالمی سپلائی چین میں انڈیا کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کی موجودگی ان کے لیے باعثِ افتخار ہے اور انہوں نے مودی کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا: ’’یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ آپ یہاں تشریف لائے۔‘‘
اس ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ دونوں وزرائے اعظم نے باہمی احترام، قانون کی بالادستی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت جیسے بنیادی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے مستقبل میں تعلقات کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مارک کارنی نے نہ تو اس ملاقات کے دوران اور نہ ہی بعد میں سابق وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے انڈیا کے خلاف کی گئی تنقید یا الزامات کا ذکر کیا۔
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئی حکومت سابقہ تنازعات سے فاصلہ اختیار کر کے ایک نیا، غیرجانبدار اور متوازن لائحہ عمل اپنانا چاہتی ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان جاری سفارتی جمود کا خاتمہ کیا جا سکے۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ نئی شروعات پائیدار انداز میں آگے بڑھتی ہے تو یہ دونوں ممالک کے لیے نہ صرف اقتصادی بلکہ سٹریٹجک سطح پر بھی سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔