اسلام آباد:پاکستان کی قومی ایئر لائن، پی آئی اے، جو کئی دہائیوں سے معاشی بحران، ناقص انتظامیہ اور سیاسی مداخلت کا شکار رہی، اب نجکاری کے ذریعے نئی زندگی کی امید لے کر اُڑان بھرنے کے قریب ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے نجکاری کے عمل کو باقاعدہ آگے بڑھانے کے بعد ملک کے دو معروف کاروباری گروپس اور فوجی حمایت یافتہ کمپنی نے ایئر لائن کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کر دی ہے۔
پی آئی اے کے حصول میں دلچسپی رکھنے والوں میں شامل ہیں، یونس برادرز گروپ جو لکی سیمنٹ اور توانائی منصوبوں کے مالک ہیں،عارف حبیب لمیٹڈ کنسورشیم جس میں فاطمہ فرٹیلائزر، لیک سٹی اور سٹی اسکول شامل ہیں
فوجی فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ (FFC)جو فوج کے زیرِ اثر چلنے والا طاقتور صنعتی ادارہ ہے
لیکن سب سے حیران کن اور دل کو چھو لینے والا پہلو یہ ہے کہ پی آئی اے کے سینئر ملازمین نے بھی ادارے کو بچانے کے لیے بولی میں شریک ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر ہدایت اللہ نے اعلان کیا ہے کہ ملازمین اپنا پروویڈنٹ فنڈ اور پنشن لگا کر اس ادارے کی ملکیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام صرف ملازمتیں بچانے کے لیے نہیں بلکہ "ادارے کو دوبارہ زندہ کرنے کی ایک آخری کوشش ہے۔
حکومت پی آئی اے کے 50 سے 100 فیصد تک شیئرز فروخت کرنے پر آمادہ ہے، اور 19 جون کو بولیوں کے جمع کرانے کی آخری تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ نجکاری نومبر تک مکمل ہو جائے گی جو کہ آئی ایم ایف کی 7 ارب ڈالر کی بیل آؤٹ شرائط کی تکمیل کی راہ بھی ہموار کرے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال پی آئی اے کی فروخت اُس وقت ناکام ہو گئی تھی جب صرف 36 ملین ڈالر کی بولی سامنے آئی، جبکہ اس کی مقررہ قیمت 305 ملین ڈالر تھی۔
حکومت نے 2023 میں ادارے کے قرضوں کا 80 فیصد بوجھ خود اٹھا کر اس کی مالی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی، مگر سرمایہ کاروں کو اب بھی ادارے کی ساکھ، انتظامی اختیار اور افرادی قوت سے متعلق خدشات لاحق ہیں۔
اس بار صورت حال مختلف ہے طاقتور سرمایہ دار، ریاستی ادارے اور خود ادارے کے ملازمین، تینوں ایک ہی میدان میں ہیں۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ پی آئی اے کی نئی پرواز سرمایہ کے پروں پر اُڑے گی، ریاستی اثر کے سائے میں ہو گی یا جذبے اور وفاداری کے کندھوں پر۔