ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی ایک بار پھر سنگین رخ اختیار کر چکی ہے، اور باوثوق ذرائع کے مطابق واشنگٹن میں اعلیٰ سطح پر ایران پر ممکنہ فوجی کارروائی کی تیاریوں پر غور کیا جا رہا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے بلوم برگ نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ متعدد سینیئر امریکی اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایران کے خلاف کارروائی خارج از امکان نہیں۔
ان اہلکاروں کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور فیصلہ کن مرحلے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
اگرچہ قطعی کارروائی کا فیصلہ ابھی سامنے نہیں آیا، تاہم بعض ذرائع کا ماننا ہے کہ موجودہ ہفتے کے اختتام تک امریکہ کوئی جارحانہ قدم اٹھا سکتا ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو حالیہ دنوں میں متعدد بار ایران سے متعلق بیانات دے چکے ہیں، اس مسئلے پر مکمل خاموشی تو اختیار نہیں کر رہے لیکن ہر بار کسی واضح فیصلے سے گریز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک روز قبل جب وائٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا امریکہ واقعی ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے، تو انہوں نے دو ٹوک انداز میں جواب دینے سے انکار کر دیا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا: "شاید ہم کریں، شاید نہ کریں، کسی کو معلوم نہیں میں کیا کرنے جا رہا ہوں۔” انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی قیادت اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے اور ان کی طرف سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار سامنے آیا ہے۔
ٹرمپ کے مطابق ایران نے اپنے حکام کو امریکہ بھیجنے کی پیشکش بھی کی تاکہ جوہری پروگرام پر بات چیت ہو سکے، لیکن "اب بہت دیر ہو چکی ہے۔”
اپنے مخصوص انداز میں صدر ٹرمپ نے کہا، "کبھی کبھی صرف ایک ہفتے کا فرق بھی پوری صورت حال کو بدل دیتا ہے۔ ہم اب بھی ملاقات کر سکتے ہیں، لیکن وقت تیزی سے گزر چکا ہے۔
” ان کا کہنا تھا کہ ایران کی طرف سے مذاکرات کی خواہش حوصلہ افزا ضرور ہے لیکن فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ "بات چیت کا دروازہ ابھی مکمل بند نہیں ہوا، لیکن اس میں جھانکنے کے لیے زیادہ وقت نہیں بچا۔”
یہ بھی یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارت کے دوران 2018 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کی جگہ ایک "زیادہ مؤثر اور مضبوط” معاہدہ چاہتے ہیں جو ایران کے جوہری عزائم کو مکمل طور پر ختم کر سکے۔
تاہم، حالیہ دنوں میں صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو گئی جب اسرائیل نے چھ دن پہلے ایران میں مختلف اہداف پر فضائی حملے کیے۔
ان حملوں کے بعد امریکہ پر دباؤ بڑھا ہے کہ وہ اپنے اتحادی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو اور ایران کو فوجی طور پر جواب دے۔ اسی تناظر میں اب امریکی حکومت کے اعلیٰ حکام مختلف عسکری اور سفارتی راستوں پر غور کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کے قریبی حلقے کے مطابق صدر اب سفارتی ذرائع کے بجائے فوجی حکمت عملی کی طرف مائل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، خاص طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
اگرچہ مذاکراتی عمل ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، لیکن امریکی صدر اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں کہ آیا ایرانی قیادت کے ساتھ میز پر بیٹھا جائے یا میدان جنگ میں ان کا سامنا کیا جائے۔
ایران کی طرف سے تاحال اس معاملے پر کوئی باقاعدہ ردعمل نہیں آیا، تاہم عالمی سطح پر خدشات بڑھ رہے ہیں کہ اگر امریکہ نے واقعی فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا تو مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور بڑے تنازعے کا آغاز ہو سکتا ہے، جو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔