امریکہ نے آج صبح ایران میں تین اہم مقامات کو نشانہ بنا کر ایک خطرناک اور سنگین قدم اٹھایا ہے، جو اسے اسرائیل کی اُس جنگ میں براہ راست شامل کر دیتا ہے جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کرنا ہے۔
اس کارروائی کے ذریعے امریکہ نے ایک دیرینہ دشمن کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں خطے میں کشیدگی کا دائرہ وسیع ہونے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے کیونکہ ایران نے انتقامی کارروائی کی دھمکی دے رکھی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ایران کے جوہری تنصیبات "مکمل طور پر تباہ” کر دی گئی ہیں، اور خبردار کیا کہ اگر ایران نے کسی قسم کا بدلہ لینے کی کوشش کی تو امریکہ مزید ٹھکانوں کو "انتہائی مہارت، برق رفتاری اور درستگی” سے نشانہ بنائے گا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "اب یا تو امن قائم ہو گا یا ایران کے لیے وہ سانحہ رونما ہو گا جو گزشتہ آٹھ دنوں سے بھی کہیں بڑا ہو گا۔”
ایرانی جوہری توانائی کے ادارے نے تصدیق کی ہے کہ فورڈو، اصفہان اور نطنز کی تنصیبات پر حملے کیے گئے ہیں، مگر ساتھ ہی کہا کہ اس سے ان کے جوہری منصوبے نہیں رکیں گے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب اسرائیل گزشتہ کئی دنوں سے ایران پر لگاتار حملے کر رہا تھا جن کا مقصد ایران کے فضائی دفاعی نظام اور میزائل صلاحیتوں کو تباہ کرنا اور ساتھ ہی جوہری افزودگی کے مراکز کو نقصان پہنچانا تھا۔
سوشل میڈیا پر جاری بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ "ہم نے ایران کے تین جوہری مراکز پر کامیاب حملہ مکمل کر لیا ہے، جن میں فورڈو، نطنز اور اصفہان شامل ہیں۔
ہمارے تمام طیارے ایران کی فضائی حدود سے بحفاظت باہر آ چکے ہیں۔ فورڈو پر مکمل بمباری کی گئی اور اب تمام طیارے اپنے اڈوں کو لوٹ رہے ہیں۔”
بعد ازاں اپنے ایک اور پیغام میں ٹرمپ نے اس حملے کو ایک "تاریخی لمحہ” قرار دیا اور کہا کہ "ایران کو اب یہ جنگ ختم کرنے پر رضامند ہونا ہوگا۔”
ایران نے فوری طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کی ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر امیر سعید ایراوانی نے ایک خط میں کہا کہ امریکہ کے ان حملوں کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جانا چاہیے، اور سلامتی کونسل کو امریکہ کو جواب دہ ٹھہرانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے چاہییں۔
سفیر نے اپنے خط میں لکھا کہ "اسلامی جمہوریہ ایران ان بلااشتعال، سوچی سمجھی اور جارحانہ کارروائیوں کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
یہ حملے اُس بڑے اسرائیلی حملے کے فوراً بعد کیے گئے ہیں جو 13 جون کو ایران کی پرامن جوہری تنصیبات پر کیا گیا۔”
ادھر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی حملوں کے بعد ایران کے جوہری مراکز سے کسی قسم کی تابکاری کے اخراج کی اطلاع نہیں ملی ہے اور "خارجی علاقوں میں تابکاری کی سطح میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔”
دوسری طرف فضائی سفر پر بھی ان حملوں کے اثرات دیکھے گئے۔ فلائٹ ٹریکنگ ویب سائٹ فلائٹ ریڈار 24 کے مطابق، فضائی کمپنیاں مشرق وسطیٰ کی فضائی حدود سے گریز کر رہی ہیں۔
کئی پروازیں ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ میزائل حملوں کی وجہ سے پہلے ہی متبادل راستے استعمال کر رہی تھیں۔
اسرائیل نے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں، اور دو بڑی ایئرلائنز — ایل آل اور اَرکیا — نے وطن واپس لانے والی تمام پروازیں فی الحال معطل کر دی ہیں۔
ایل آل نے اعلان کیا ہے کہ وہ 27 جون تک اپنی تمام شیڈول پروازیں بھی منسوخ کر دے گی، جبکہ اسرائیلی حکام نے تصدیق کی ہے کہ اگرچہ فضائی حدود بند ہیں، مگر زمینی راستے مصر اور اردن سے کھلے رہیں گے۔
ادھر ایرانی سرکاری ٹی وی نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے حملوں کے بعد ایران نے اسرائیل پر میزائلوں کی ایک نئی بارش کی ہے۔ اینکر نے بتایا کہ "مقبوضہ علاقوں پر ایران نے 30 نئے میزائل داغے ہیں۔”
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین اور نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "یہ حملے انتہائی اشتعال انگیز اور ناقابل قبول ہیں، جن کے اثرات دیرپا ہوں گے۔” انہوں نے واضح کیا کہ "ایران اپنی خودمختاری، مفادات اور عوام کے دفاع کے لیے تمام ممکنہ اقدامات محفوظ رکھتا ہے۔”
دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ٹرمپ کو "تاریخی اور دلیرانہ فیصلہ” کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔
اپنی ویڈیو میں انہوں نے کہا کہ "آپ کے فیصلے نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا ہے۔ امریکہ نے وہ کر دکھایا جو دنیا کا کوئی دوسرا ملک نہیں کر سکتا تھا۔”
اسی طرح اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینن نے کہا: "صدر ٹرمپ کا شکریہ کہ آپ نے ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے یہ فیصلہ کیا۔ آج آپ نے ثابت کیا کہ ’کبھی دوبارہ نہیں‘ صرف نعرہ نہیں بلکہ پالیسی ہے۔”
حملے کی تفصیلات فوری طور پر وائٹ ہاؤس یا پینٹاگون نے جاری نہیں کیں، مگر فاکس نیوز کے میزبان شان ہینیٹی نے بتایا کہ انہوں نے ٹرمپ سے بات کی ہے، اور حملے میں فورڈو تنصیب پر چھ بھاری بم استعمال کیے گئے جبکہ امریکی آبدوزوں سے نطنز اور اصفہان پر 30 ٹوماہاک میزائل داغے گئے، جو تقریباً 400 میل دور سے فائر کیے گئے۔
یہ حملے صدر ٹرمپ کے لیے ایک ذاتی امتحان بھی سمجھے جا رہے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی صدارت کی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کو مہنگی غیر ملکی جنگوں میں نہیں جھونکیں گے اور عالمی مداخلت پسندی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس نے کہا ہے کہ وہ امریکی حملوں کے بعد خطے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی پر "شدید پریشان” ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "اس وقت خطرہ ہے کہ یہ تنازعہ مکمل طور پر بے قابو ہو سکتا ہے، جس کے شہریوں، خطے اور پوری دنیا کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے۔”