ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں امریکہ کی شمولیت کے بعد پاکستان میں اس وقت ایک نئی سیاسی بحث چھڑ گئی ہے، جب حکومتِ پاکستان کی جانب سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سفارش گزشتہ ماہ پاک-بھارت کشیدگی کے دوران ٹرمپ کی "فیصلہ کن سفارتی مداخلت” کے اعتراف میں کی گئی، جس سے دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان ممکنہ جنگ ٹالنے میں مدد ملی۔
سرکاری بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلام آباد اور نئی دہلی کے ساتھ بیک ڈور سفارتی روابط استوار کیے اور تنازع کو بڑھنے سے روکا، اس لیے ان کی خدمات کو سراہنا پاکستان کی ذمہ داری تھی۔ تاہم، اپوزیشن جماعتوں اور سیاسی مبصرین نے اس فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے فوری طور پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اس فیصلے کو "پاکستان کی غیر جانبدار خارجہ پالیسی کے منافی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس شخصیت کو عالمی سطح پر تنازعات بھڑکانے والا سمجھا جاتا ہے، اسے امن کا علمبردار تسلیم کرنا کسی بھی طور قابل قبول نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ اگر ٹرمپ ثالث تھے، تو اس کا کوئی ٹھوس اور شفاف ثبوت سامنے لایا جائے۔
دوسری جانب، حکومت کا مؤقف ہے کہ اس نامزدگی کا حالیہ بین الاقوامی تنازعات سے کوئی تعلق نہیں اور یہ فیصلہ صرف اُس وقت کی مخصوص صورتحال کے تناظر میں کیا گیا جب جنگ کا خطرہ حقیقی تھا۔ حکومت نے وضاحت دی کہ پاکستان نے سفارتی اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی سطح پر ایک ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیا۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کی سفارتی ترجیحات پر سوال اٹھ سکتے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عالمی جغرافیائی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ نوبل انعام کمیٹی کی طرف سے تاحال اس نامزدگی پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن بین الاقوامی حلقے اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔