ایران کے فردو، نطنز اور اصفہان میں قائم جوہری تنصیبات پر امریکا کے حالیہ بمباری حملے، جنہیں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک "شاندار عسکری فتح” قرار دیا، درحقیقت امریکی اندرونی حلقوں میں غیر یقینی، تشویش اور تذویراتی ابہام کو بے نقاب کر گئے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک ’اٹلانٹک کونسل‘ کی حالیہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں سرکاری سطح پر طاقت کا مظاہرہ دکھایا گیا، وہیں ماہرین نے اس کارروائی کے نتائج پر گہرے سوالات اٹھائے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کی مزاحمت، اسرائیل اور امریکا کی مسلسل کارروائیوں کے باوجود، نہ صرف برقرار ہے بلکہ اب زیادہ منظم نظر آ رہی ہے۔
اٹلانٹک کونسل کے مڈل ایسٹ انیشی ایٹو کے ڈائریکٹر جوناتھن پینیکوف نے خبردار کیا ہے کہ اب "ایران کی باری ہے” اور اس کا ردعمل محدود جوابی کارروائی سے لے کر مکمل جنگی تصادم تک ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایران کو کچھ نقصان پہنچا ہے، مگر اس کی دفاعی صلاحیت اور حکمت عملی باقی ہے، جو اس کی خودمختاری اور قومی وقار پر مبنی ہے۔ اس رائے سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی بیانیہ جس "فتح” کا دعویٰ کرتا ہے، درحقیقت وہ ایک عسکری جوا ہے۔
اٹلانٹک کونسل کے نائب صدر میتھیو کرونگ نے اس کارروائی کو سرد جنگ کے بعد امریکا کی "سب سے بڑی کامیابی” قرار دیا، لیکن ساتھ ہی تسلیم کیا کہ سابقہ امریکی حکومتیں ایران سے مذاکرات میں مکمل ناکام رہیں۔ گویا فتح کے پیچھے سفارتی ناکامی کی ایک کڑوی حقیقت چھپی ہے۔
اسرائیل میں سابق امریکی سفیر ڈینیئل شاپیرو نے اس حملے کو ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کا "موقع” قرار دیا، مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایران نے ہمیشہ دباؤ کو مسترد کیا ہے اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔
اٹلانٹک کونسل کے انرجی ماہر لینڈن ڈیرینٹز نے اس بات پر اطمینان ظاہر کیا کہ عالمی تیل کی منڈی متاثر نہیں ہوئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی حقوق یا قانونی پہلو سے زیادہ اہمیت معیشت کو دی گئی۔ ایران کے جوہری پروگرام کو قومی شناخت کا حصہ قرار دینے والے ماہر ایلن پینو کا کہنا تھا کہ ایران دھمکیوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا، اور یہ حملہ درحقیقت روس اور چین کو پیغام دینے کی ایک امریکی کوشش تھی۔ ماہر ٹریسا گونوو کے مطابق ایران سائبر حملے یا پراکسی فورسز کے ذریعے جواب دے سکتا ہے، اور یہ تاثر دینا کہ ایران کا پروگرام ختم ہو چکا ہے، محض نمائشی دعویٰ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، ایران اسٹریٹجی پروجیکٹ سے منسلک ماہر ڈینی اسٹرینووچ نے اعتراف کیا کہ یہ کارروائی جنگ کو ختم کرنے کے بجائے اسے مزید طویل اور پیچیدہ بنا سکتی ہے، اور اسرائیل کی جانب سے دباؤ کے باوجود اگر امریکا پیچھے ہٹا تو طویل جنگ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یوکرین میں سابق امریکی سفیر جان ہربسٹ نے اس حملے کو درحقیقت روس کے خلاف امریکی سٹریٹیجک پوزیشن کو مضبوط کرنے کا حربہ قرار دیا، جو ایران کو عالمی اسٹریٹیجی میں ایک "مہرا” قرار دینے کے مترادف ہے۔
اس تمام صورتحال کے برعکس، ایران نے واضح کر دیا ہے کہ وہ پرامن جوہری ٹیکنالوجی کے حق سے دستبردار نہیں ہوگا اور ملکی دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ شدید عسکری دباؤ کے باوجود، ایران کی عالمی ساکھ اور خطے میں کردار کمزور نہیں ہوا۔ ایرانی عوام نے ایک بار پھر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ غیر ملکی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی روایت کو جاری رکھیں گے۔