اگرچہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے اعلان نے دنیا بھر میں سکون کی لہر دوڑا دی ہے، لیکن ایران کی جانب سے اب تک اس کی سرکاری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔ تہران کے معروف تھنک ٹینک ’سنٹر فار مڈل ایسٹ اسٹریٹجک اسٹڈیز‘ سے وابستہ تجزیہ کار عباس اصلانی کا کہنا ہے کہ ایران اسرائیل پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ اسرائیل ماضی میں غزہ اور لبنان کے ساتھ کیے گئے جنگ بندی معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی کر چکا ہے۔
غیرملکی میڈیاادارے سے گفتگو کرتے ہوئے اصلانی نے کہاکہ ایران اس وقت صرف موجودہ صورتِ حال کو دیکھ رہا ہے۔ اگر اسرائیل کی جانب سے کسی قسم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی تو تہران بھی جنگ بندی پر کاربند رہے گا، لیکن سرِدست خاموشی اختیار کرنا ایران کی اسٹریٹجک احتیاط کا حصہ ہے۔”
اصلانی نے جنگ کے اہداف پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ اسرائیل اور امریکا کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کرنا اور رجیم چینج یعنی نظامِ حکومت کی تبدیلی تھا، مگر وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ کچھ جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا، مگر ایران نے حساس جوہری مواد پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا تھا۔ نہ صرف ایران کی ٹیکنیکل مہارت محفوظ رہی بلکہ اس کی میزائل صلاحیتیں بھی پوری طاقت کے ساتھ قائم ہیں، جیسا کہ اسرائیل پر دن دیہاڑے کیے گئے میزائل حملے سے ظاہر ہوا۔
اصلانی کے مطابق، موجودہ صورتحال میں امریکا کے ساتھ بامعنی مذاکرات ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جوہری مذاکرات کے دوران امریکا اور اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے سفارتی اعتبار سے بداعتمادی کی فضا مزید گہری کر دی ہے۔
دیگر بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ ایران آج بھی عسکری، سائنسی اور سفارتی طور پر مضبوط اور فعال ملک ہے، جس نے نہ صرف حملوں کا جواب دیا بلکہ اپنی دفاعی قوت کو بھی دنیا کے سامنے ثابت کیا۔