تہران : ایران کی پارلیمنٹ نے ایک تاریخی اور سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ ہر قسم کا تعاون معطل کرنے کا بل بھاری اکثریت سے منظور کر لیا ہے۔ 222 اراکین نے بل کے حق میں ووٹ دیا، کسی نے مخالفت نہیں کی، جب کہ صرف ایک رکن نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اس اقدام کو ایران کی جانب سے اپنی خودمختاری، سیکیورٹی اور جوہری مفادات کے تحفظ کا فیصلہ کن اشارہ قرار دیا جا رہا ہے۔
بل کے تحت، اب IAEA کو ایران کی جوہری تنصیبات تک رسائی صرف اس صورت میں ملے گی جب ایران کو معائنہ کاروں کی سیکیورٹی کی مکمل ضمانت دی جائے۔ یعنی ایران نہ صرف سائٹس کی نگرانی، بلکہ کیمرے نصب کرنے، رپورٹنگ، اور معائنہ کاروں کے داخلے جیسے معمول کے تعاون سے بھی انکار کر سکتا ہے، جب تک تحفظ کا یقین نہ ہو۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 13 جون سے جاری اسرائیلی حملوں اور امریکہ کی جانب سے فردو، نطنز اور اصفہان میں ایرانی تنصیبات پر بمباری نے خطے میں کشیدگی کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ ایرانی حکام نے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے (NPT) کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ایرانی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیٹی نے پہلے ہی اس بل کی منظوری دے دی تھی، جسے اب عوامی نمائندوں نے پارلیمنٹ سے بھی باضابطہ پاس کر دیا ہے۔ کمیٹی کے ترجمان، ابراہیم رضائی نے کہا ہے کہ جب تک IAEA پیشہ ورانہ رویے کی ضمانت فراہم نہیں کرتا، ایران کے جوہری دروازے اس کے لیے بند رہیں گے۔
ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم (AEOI) کے مطابق، ان حملوں کے باوجود ایران اپنے پرامن جوہری پروگرام کو جاری رکھے گا، اور وہ کسی بھی دباؤ یا جارحیت سے مرعوب نہیں ہوگا۔ تہران نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ ایران اپنے قومی مفادات اور دفاع کے لیے ہر ممکن آپشن محفوظ رکھتا ہے۔
یہ اقدام نہ صرف ایک علاقائی پیغام ہے بلکہ ایک عالمی پیغام بھی — کہ ایران اب محض تماشائی نہیں رہے گا، بلکہ خودمختاری اور سیکیورٹی کے میدان میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔