واشنگٹن ڈی سی:امریکی ایوانِ نمائندگان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تازہ کوشش ناکامی سے دوچار ہو گئی۔ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے لیے کانگریس سے اجازت نہ لینے کے اقدام پر صدر کے مواخذے کی قرارداد ڈیموکریٹ رکن کانگریس ایل گرین نے پیش کی، لیکن ایوان کی اکثریت نے اسے مسترد کر دیا ۔ یہاں تک کہ خود کئی ڈیموکریٹس نے بھی ریپبلکن اراکین کے ساتھ مل کر قرارداد کی مخالفت کر دی۔
الجزیرہ اور اے پی کے مطابق، یہ قرارداد جمہوریت بمقابلہ آمریت کے اصولی معرکے پر مبنی تھی۔ ایل گرین نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ "کسی ایک فرد کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پورے ملک کو جنگ میں دھکیل دے۔ انہوں نےکہا، اگر آئین صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے، تو پھر ہم کس نظام کی بات کر رہے ہیں؟
ایوان میں 344 ارکان نے قرارداد کو مؤخر کرنے کے حق میں جبکہ 79 نے مخالفت میں ووٹ دیا ۔ جس کا مطلب ہے کہ صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی یہ کوشش پارٹی لائن سے بالاتر ہو کر ناکام بنا دی گئی۔ اس اقدام سے نہ صرف کانگریس کی تقسیم واضح ہوئی بلکہ یہ بھی ظاہر ہوا کہ ٹرمپ کی فوجی کارروائیوں کو وقتی طور پر سیاسی تحفظ حاصل ہے۔
یہ تمام صورتحال 22 جون کو لانچ کیے گئے آپریشن ’مڈنائٹ ہیمر‘ کے بعد پیدا ہوئی، جس میں امریکی فوج نے ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات پر بھرپور حملے کیے۔ امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کین کے مطابق، اس آپریشن میں ایران کے دو مقامات پر 14 GBU-57 بنکر بسٹر بم گرائے گئے، جب کہ اصفہان کی جوہری سائٹ پر آبدوزوں سے دو درجن سے زائد ٹاماہاک کروز میزائل داغے گئے۔
اس خفیہ اور بڑے پیمانے کے آپریشن میں 7 B-2 اسٹیلتھ بمبار، 145 امریکی جنگی طیارے، اور متعدد آبدوزیں شامل تھیں۔ یہ امریکی عسکری طاقت کا وہ مظاہرہ تھا جس نے ایران کو فوری ردعمل پر مجبور کر دیا اور ساتھ ہی کانگریس کے اندر ایک آئینی سوال بھی جنم دیا: کیا صدر کو بغیر اجازت اتنی بڑی فوجی کارروائی کی آزادی حاصل ہے؟