چین کے شہر چنگڈاؤ میں آج شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں رکن ممالک کے وزرائے دفاع نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی، جب کہ بھارت کی جانب سے راجناتھ سنگھ اجلاس میں شریک ہوئے۔
چین کی میزبانی میں منعقد ہونے والے اس اجلاس کا پس منظر دنیا بھر میں جاری جغرافیائی کشیدگی اور عسکریاتی اتحادوں کی نئی صف بندیوں سے جڑا ہوا تھا، جہاں عالمی طاقتوں کے درمیان ابھرتے ہوئے اتحاد اور کشمکش نئی شکل اختیار کر رہے ہیں۔
اجلاس کے دوران چینی وزیر دفاع ڈونگ جون نے اپنے خطاب میں موجودہ عالمی صورتحال کا جائزہ پیش کیا اور کہا کہ آج کی دنیا میں بڑے پیمانے پر ایسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں جو عالمی نظام کے توازن کو بگاڑنے کا سبب بن رہی ہیں۔
ان کے مطابق یکطرفہ فیصلے، تجارتی تحفظ پسندی (پروٹیکشن ازم) اور عالمی سطح پر جبر و تسلط کی کوششیں بین الاقوامی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی تمام کوششیں عالمی امن اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہیں۔
چینی وزیر دفاع نے تمام رکن ممالک کے وزرا پر زور دیا کہ وہ اس بدلتی ہوئی دنیا کے تناظر میں مشترکہ طور پر ایک ایسا دفاعی اور سفارتی ماحول پیدا کریں جو پرامن ترقی کی راہ ہموار کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسے مضبوط اقدامات اٹھانے ہوں گے جو باہمی اعتماد کو فروغ دیں اور شراکت داری کو ایک نئی جہت دیں تاکہ موجودہ خطرات کا مؤثر انداز میں مقابلہ کیا جا سکے۔
روسی وزیر دفاع آنڈرے بیلوسوف، جو اجلاس کے موقع پر چین کے دورے پر تھے، نے اپنی گفتگو میں چین اور روس کے باہمی تعلقات کو "غیر معمولی سطح” پر قرار دیا اور کہا کہ ان دو طاقتور ممالک کے درمیان تعاون ہر شعبے میں وسعت اختیار کر چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دفاع، معیشت، سفارتکاری اور دیگر کئی میدانوں میں چین اور روس ایک دوسرے کے قریبی شراکت دار بن چکے ہیں۔
اگرچہ چین نے یوکرین کے تنازع پر بظاہر غیرجانبداری کا مؤقف اختیار کیا ہے، لیکن مغربی ممالک کا خیال ہے کہ بیجنگ نے پس پردہ ماسکو کو سفارتی اور اقتصادی سہارا فراہم کیا ہے۔
دوسری جانب انڈین وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران اس بات پر زور دیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے عوام کی امنگوں اور توقعات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اجتماعی چیلنجز کا مقابلہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر گلوبلائزیشن کی جو لہر ہمیں قریب لا رہی تھی، وہ اب اپنی رفتار کھو چکی ہے، اور دنیا شدید تغیر و تبدل کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں اجتماعی حکمت عملی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔
اجلاس کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دنیا ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کی ایک بڑی کشیدگی سے گزر چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بارہ روز تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد جنگ بندی عمل میں آئی ہے، جس نے عالمی سطح پر سیکیورٹی کے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔
اسی دوران نیٹو ممالک نے گزشتہ روز ہیگ میں ہونے والے اپنے اجلاس میں دفاعی اخراجات میں اضافے پر اتفاق کیا ہے، جسے مغرب کی جانب سے عسکری تیاریوں کے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔
چین کی یہ کوشش رہی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو عالمی سطح پر مغربی اتحادوں کے متبادل کے طور پر پیش کیا جائے اور اس کے ذریعے رکن ممالک کے مابین سیاسی، عسکری اور اقتصادی تعاون کو فروغ دیا جائے۔
اسی تناظر میں بیجنگ کی میزبانی میں ہونے والا یہ اجلاس خاصی اہمیت کا حامل رہا، جس میں روس، ایران، بیلاروس، پاکستان، بھارت، اور دیگر ممالک کے وزرائے دفاع نے باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا اور علاقائی استحکام و تعاون کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل پر گفتگو کی۔
یہ اجلاس محض ایک رسمی تقریب نہیں تھی بلکہ دنیا میں بدلتے ہوئے توازنِ طاقت، بڑھتی ہوئی کشیدگیوں، اور عسکری اتحادوں کے نئے نقشے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ممکنہ کردار پر غور و خوض کا ایک اہم موقع تھا۔
چین کی یہ پالیسی کہ وہ مغرب کی قیادت والے نظام کے مدمقابل ایک ہم آہنگ، بااعتماد اور خودمختار بلاک تشکیل دے، اس اجلاس کی روح میں نمایاں طور پر جھلک رہی تھی۔