ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی نے ایک نیا موڑ اس وقت اختیار کیا جب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کو مبالغہ آرائی سے بھرپور اور حقیقت سے نظریں چرانے کی کوشش قرار دیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس” پر جاری اپنے سخت بیان میں خامنہ ای نے کہا کہ ٹرمپ جو زبان استعمال کر رہے ہیں، وہ صرف ایک سیاسی چال ہے، تاکہ اصل ناکامیوں کو چھپایا جا سکے۔
یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب صدر ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایران بہت تھک چکا ہے اور اب وہ جوہری منصوبے پر واپس جانے کا سوچ بھی نہیں رہا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایران کے پاس امریکی حملوں سے پہلے یورینیم کو خفیہ مقامات پر منتقل کرنے کا وقت بھی نہیں تھا، اور حالیہ جنگ تہران کے لیے "انتہائی مہنگی” ثابت ہوئی۔ ٹرمپ نے ایران کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ "یورینیم افزودگی” جیسی خطرناک اصطلاحات کا استعمال مناسب نہیں۔
ایران اور اسرائیل کے مابین 13 جون سے شروع ہونے والی جھڑپوں نے خطے میں ہنگامہ برپا کردیا۔ یہ جھڑپیں 12 دن تک جاری رہیں،جن میں امریکہ نے بھی کھل کر مداخلت کی۔ ہفتے کی رات امریکہ نے ایران کی تین بڑی جوہری تنصیبات فردو، نطننز اور اصفہان پر فضائی حملے کیے، جنہیں امریکہ اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہا ہے۔
تاہم، ایران نےفوراً جوابی کارروائی کرتے ہوئے عراق اور قطر میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا، لیکن ان حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔دفاعی ماہرین کے مطابق ایران کا یہ ردعمل ایک سمجھی سمجھی حکمتِ عملی تھی، تاکہ امریکہ پر دباؤ ڈالا جا سکے، مگر کسی بڑے تصادم سے بچا جا سکے۔
ان جھڑپوں کے صرف چند گھنٹوں بعد صدر ٹرمپ نے اچانک جنگ بندی کا اعلان کر دیا، جو کئی سوالات کو جنم دیتا ہے: کیا یہ عالمی دباؤ کا نتیجہ تھا؟ یا امریکہ خطے میں کسی طویل جنگ کے بوجھ سے بچنا چاہتا ہے؟ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیاں ہٹانے کی مشروط پیشکش بھی اسی نئی حکمتِ عملی کا حصہ ہو سکتی ہے۔
خامنہ ای کے مطابق امریکہ کی جانب سے کیے گئے دعوے صرف ایک "نظری فریب” ہیں، جن کا مقصد دنیا کی توجہ حقیقت سے ہٹانا ہے۔ان کے بقول "ٹرمپ نے جو زبان استعمال کی، وہ محض الفاظ کا کھیل ہے، اصل میں وہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکے۔