سعودی عرب کے علاقے الباحہ کی قلوہ کمشنری میں ایک افسوسناک حادثے نے جہاں تین قیمتی جانیں لے لیں، وہیں پانچ نوجوانوں کی جرات اور ایثار نے ایک زندگی کو موت کے منہ سے نکال کر پورے علاقے کو فخر اور شکرگزاری کا احساس بخشا۔ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ایک تیز رفتار گاڑی، جو مسجد کے قریب سے گزر رہی تھی، اچانک ڈرائیور کے قابو سے باہر ہو کر قریبی باغ میں جا گھسی۔ شدید ٹکر کے نتیجے میں گاڑی میں آگ بھڑک اُٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔
حادثے کی آواز سن کر قریبی علاقے کے چند نوجوان موقع پر پہنچے اور بغیر کسی حفاظتی انتظام کے آگ کے الاؤ کی جانب دوڑ پڑے۔ ان پانچ نوجوانوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر جلتی ہوئی گاڑی میں موجود افراد کو بچانے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان میں سے ایک نوجوان، محمد عیضہ الزرعی، جو اس واقعے کے عینی شاہد بھی تھے اور امدادی کوششوں میں پیش پیش رہے، نے بتایا کہ ابتدائی طور پر انہوں نے گاڑی کا بایاں دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن وہ پھنس چکا تھا۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا اور آگ ہر لمحہ گاڑی کے اندر مزید پھیل رہی تھی۔
محمد عیضہ نے بتایا کہ جب سامنے کا دروازہ نہ کھل سکا تو انہوں نے عقبی دروازے کو زور آزمائی سے کھولا اور بڑی مشکل سے ایک شخص کو باہر نکالا۔ جیسے ہی وہ اسے کھینچ کر گاڑی سے باہر لائے، شعلے پوری گاڑی کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے اور اندر موجود باقی افراد کے لیے کچھ بھی کرنا ممکن نہ رہا۔ دیگر نوجوان بھی موقع پر پہنچ چکے تھے اور سب نے مل کر زخمی کو فوراً قریبی محفوظ مقام پر منتقل کیا۔
یہ جذبہ اس قدر بے مثال تھا کہ پانچوں نوجوان شدید زخمی ہو گئے۔ محمد عیضہ کے چہرے، ہاتھوں اور ٹانگوں پر آگ سے جھلسنے کے نشان واضح تھے جبکہ ان کے چار ساتھی بھی بری طرح متاثر ہوئے۔ بعدازاں ریسکیو سروسز اور ہلال الاحمر کے یونٹس نے موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا، جبکہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے تین افراد کی نعشیں بھی نکال لی گئیں۔
اس جان لیوا صورتحال میں ان نوجوانوں نے جس بہادری اور ایثار کا مظاہرہ کیا، وہ صرف ایک امدادی کارنامہ نہیں بلکہ انسانیت، ہمدردی اور بے لوثی کی ایک نادر مثال ہے۔ کسی تربیت یافتہ عملے یا پیشہ ورانہ امدادی ٹیم کی عدم موجودگی میں ان نوجوانوں نے جو فیصلہ کن کردار ادا کیا، اس نے نہ صرف ایک جان بچائی بلکہ ہزاروں دلوں میں ان کے لیے عزت، احترام اور محبت کے جذبات پیدا کیے۔
اس بہادری اور قربانی پر اہل علاقہ نے بھرپور انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ علاقے کے بزرگوں، مسجد کمیٹی کے ارکان اور مقامی تاجروں نے ان نوجوانوں کو "ہیروز آف قلوہ” کا لقب دیا اور ان کے اعزاز میں خصوصی تقریب کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر انہیں اسناد، تحائف اور دعاؤں سے نوازا گیا۔
یہ واقعہ نہ صرف انسانی جان بچانے کی کوشش کی ایک قابلِ تحسین داستان ہے بلکہ سعودی معاشرے میں نوجوان نسل کے جذبہِ خدمت، انسان دوستی اور خطرے کے وقت غیر معمولی ردعمل کی بھی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ محمد عیضہ الزرعی اور ان کے ساتھیوں نے جو کچھ کیا وہ معاشرے کے دیگر نوجوانوں کے لیے بھی مشعلِ راہ ہے۔