دنیا کے امیر ترین شخص اور ٹیسلا کے بانی ایلون مسک نے امریکی یومِ آزادی کے موقع پر سیاست کے میدان میں بڑا قدم اٹھاتے ہوئے سنیچر کے روز اپنی نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ کے ذریعے اس جماعت کا نام ’امریکہ پارٹی‘ ظاہر کیا اور کہا کہ یہ جماعت امریکی عوام کو ان کی "آزادی واپس دلانے” کے لیے بنائی گئی ہے۔
ایلون مسک نے اپنی پوسٹ میں کہاکہ جب ملک کو فضول خرچی اور کرپشن کے ذریعے دیوالیہ کیا جا رہا ہو، تو یہ جمہوریت نہیں بلکہ ایک جماعتی نظام ہوتا ہے۔
مسک نے اپنی بات کو ایک سوشل میڈیا پول کے ذریعے تقویت دی، جس میں عوام کی اکثریت نے دو جماعتی نظام سے نجات کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ دو کے مقابلے میں ایک کے تناسب سے امریکی شہری ایک نئی جماعت چاہتے ہیں، اور اب وہ جماعت وجود میں آ چکی ہے۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو ٹیکس کٹوتی اور حکومتی اخراجات کے بل پر دستخط کیے، جس پر مسک نے شدید تنقید کی۔ ان کے مطابق یہ بل عام امریکیوں کے مفادات کے خلاف ہے اور مستقبل میں معیشت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں دھمکی دی تھی کہ اگر مسک حکومت پر تنقید کرتے رہے تو ان کی کمپنیوں کو ملنے والی اربوں ڈالر کی وفاقی سبسڈی بند کر دی جائے گی۔ یاد رہے کہ ماضی میں ایلون مسک نے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے تھے اور ان کی انتظامیہ میں 129 دن تک کام بھی کیا، تاہم بعد میں پالیسی اختلافات کی بنیاد پر کنارہ کش ہو گئے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ’امریکہ پارٹی‘ امریکی سیاست میں ایک انقلابی موڑ ثابت ہو گی؟ کیا ایلون مسک کی مقبولیت اور سرمایہ، روایتی دو جماعتی نظام کو چیلنج کرنے کے لیے کافی ہوں گے؟ آنے والے دنوں میں امریکی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جس میں ایلون مسک نہ صرف ایک تاجر بلکہ ایک سیاسی رہنما کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔