آسٹریلیا کی عدالت نے 50 سالہ ایرین پیٹرسن کو تین افراد کے قتل کا مجرم قرار دے دیا۔ یہ مقدمہ، جو دس ہفتوں تک جاری رہا، نہ صرف ملکی میڈیا بلکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی بھی توجہ کا مرکز رہا، کیونکہ اس کی نوعیت حیران کن اور افسوسناک دونوں تھی۔ عدالت نے واضح طور پر اپنے فیصلے میں کہا کہ ایرین نے جان بوجھ کر کھانے میں زہریلی کھمبیاں ملائیں، جن کے نتیجے میں اس کے سسرالی رشتہ داروں کی ہلاکت واقع ہوئی۔
ایرین پیٹرسن کے گھر، جو لیونگاتھا شہر میں واقع ہے، ایک خاندانی دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ کھانے میں بیف، میش پوٹیٹوز اور سبز لوبیا پیش کی گئی، جن میں پراسیکیوشن کے مطابق انتہائی مہلک زہریلی مشرومز شامل تھیں۔
اس دعوت میں ایرین کی ساس گیل پیٹرسن، سسر ڈونلڈ پیٹرسن، سسرالی رشتہ دار ہیڈر ولکنسن، اس کے شوہر اور ایک قریبی پڑوسی شامل تھے۔
کھانے کے بعد ہی سب کی طبیعت اچانک بگڑنا شروع ہو گئی۔ جلد ہی گیل، ڈونلڈ اور ہیڈر کی موت واقع ہو گئی جبکہ ہیڈر کے شوہر اور ایک پڑوسی کو شدید حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں کئی ہفتوں کی نگہداشت کے بعد ان کی جان بچائی جا سکی۔
ابتدائی تفتیش میں ایرین پیٹرسن نے اس سانحے سے لاتعلقی ظاہر کی، تاہم بعد میں ان کے بیانات میں تضاد پایا گیا۔ پولیس کے مطابق انہوں نے دوران تفتیش بارہا بیانات بدلے اور حقائق کو چھپانے کی کوشش کی۔
ان کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ایرین نے یہ سب کسی بدنیتی سے نہیں بلکہ حادثاتی طور پر کیا، اور خوف و گھبراہٹ کی وجہ سے وہ بار بار غلط بیانی کرتی رہیں۔ وکیل کے مطابق ان کی مؤکلہ کو شک ہوا کہ شاید کھانے میں کوئی ایسی چیز شامل ہو گئی ہے جو زہریلی تھی، اور یہی پریشانی انہیں مسلسل الجھن میں رکھے ہوئے تھی۔
تاہم، عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کر دیا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران پراسیکیوشن نے ٹھوس شواہد کے ذریعے یہ بات ثابت کی کہ یہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔
جج کے مطابق، ایرین نے جس طرح کھانے کی تیاری کی، اور جس ترتیب سے مہمانوں کو مدعو کیا، وہ سب کچھ اس بات کا اشارہ تھا کہ یہ عمل اتفاقی نہیں بلکہ دانستہ تھا۔
آج موریل کی عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران ایرین پیٹرسن کو چار الزامات میں مجرم قرار دیا گیا، جن میں تین قتل اور ایک اقدام قتل شامل ہیں۔
عدالت نے فیصلہ سناتے وقت کہا کہ مجرم نے نہ صرف انسانی زندگیوں کو تباہ کیا بلکہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو دھوکہ دے کر ان کا اعتماد بھی توڑا۔ سزا کا باضابطہ اعلان اگلی سماعت میں کیا جائے گا، تاہم آسٹریلوی قانون کے تحت وہ عمر قید کی سزا کا سامنا کر سکتی ہیں۔
عدالتی فیصلے کے وقت ایرین کو عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں انہوں نے نہ کوئی ردعمل دیا، نہ آنکھوں میں آنسو تھے، صرف تیزی سے پلکیں جھپکاتی رہیں، جیسے بے یقینی یا گہرے صدمے کی کیفیت میں ہوں۔