واشنگٹن/اسلام آباد: پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی جیل میں قید سے متعلق امریکی موقف پر ایک بار پھر خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے ایک تازہ پریس بریفنگ کے دوران عمران خان سے متعلق براہِ راست سوال پر باضابطہ ردعمل دینے سے گریز کیا اور معاملے کو واشنگٹن کے اعلیٰ سطحی اداروں کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔
ایک بین الاقوامی صحافی نے ٹیمی بروس سے پوچھا کہ کیا امریکی حکومت عمران خان کی جیل میں موجودگی کو پاکستان کا داخلی معاملہ سمجھتی ہے؟
اس پر ترجمان نے کہا کہ اگر امریکی حکومت کا باضابطہ مؤقف جاننا چاہتے ہیں تو وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولائن لیویٹ سے رجوع کریں۔ٹیمی بروس نے مزید گفتگو کرنے یا کسی مخصوص تبصرے سے صاف انکار کر دیا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکی محکمہ خارجہ نے عمران خان سے متعلق سوالات پر غیر واضح رویہ اپنایا ہو۔ رواں سال 20 مارچ کو بھی، ایک سوال کے جواب میں جب صحافی نے یہ استفسار کیا تھا کہ "کیا سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو جیل سے نکالنے کے لیے کوئی اقدام کریں گے؟” تو ٹیمی بروس نے کہا تھا
ہم کسی دوسرے ملک کے داخلی معاملات پر تبصرہ نہیں کرتے۔تجزیہ کاروں کے مطابق، امریکی محکمہ خارجہ کی بار بار محتاط زبان اور خاموشی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ واشنگٹن، اسلام آباد کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی غیر جانبداری کی پالیسی اختیار کر رہا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستان میں آئینی، عدالتی اور سیاسی کشمکش عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، امریکی حکومت کا محتاط طرزِ عمل سفارتی حکمت عملی کا عکاس ہے۔
واشنگٹن میں بعض مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ امریکا عمران خان کے معاملے کو نہ کھل کر سراہ رہا ہے، نہ مخالفت کر رہا ہے، تاکہ پاکستان میں کسی خاص دھڑے کی حمایت یا مخالفت کا تاثر نہ جائے۔ دوسری جانب، پاکستان میں عمران خان کے حامی حلقے امریکی خاموشی کو "سیاسی مصلحت” اور "موقع پرستی” قرار دے رہے ہیں، جب کہ حکومتی حلقے اس پالیسی کو واشنگٹن کی "ذمہ دارانہ غیر جانبداری” سے تعبیر کر رہے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال باقی ہے کہ اگر عمران خان کا کیس عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں میں جائے، تو کیا امریکا اسی خاموشی پر قائم رہے گا، یا پھر کوئی پالیسی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی؟