ملین پاوٴنڈ کے کرپشن کیس میں سابق چیئرمین اثاثہ ریکوری یونٹ اور سابق مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر کا مرکزی کردار سامنے آ گیا ہے، جس نے ملک کو اربوں روپے کے مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ذرائع کے مطابق، شہزاد اکبر نے 6 نومبر 2019 کو ایک خفیہ "Deed of Confidentiality” معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت 190 ملین پاوٴنڈ کی رقم نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ذمہ داری اکاوٴنٹ سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام "نامزد اکاوٴنٹ” میں منتقل کی گئی۔ اس رقم کو غلط طریقے سے اسٹیٹ بینک کا اکاوٴنٹ ظاہر کیا گیا، جس سے ریاست کو سنگین مالی نقصان پہنچا۔
تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ شہزاد اکبر نے اپنے برطانیہ کے دوروں کے دوران نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) اور برطانوی حکام سے چھپ کر خفیہ معاملات طے کیے اور این سی اے حکام سے خفیہ "روڈ میپ” بنایا، مگر ایف بی آر، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کو اس عمل سے خارج رکھا۔ اس بدنیتی سے نہ صرف سپریم کورٹ کی عزت متاثر ہوئی بلکہ 50 ارب روپے سے زائد رقم نجی مفادات کے لیے استعمال ہوئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ 6 نومبر کو معاہدے پر دستخط، اینٹی کرپشن یونٹ کے نوٹیفکیشن اور کابینہ اجلاس سے قبل کیے گئے، جو ملزم کی بدنیتی کی واضح دلیل ہے۔ سابق وزیراعظم کے ساتھ 2 مارچ 2019 کو ہونے والی ملاقات میں بھی اس معاملے پر غور ہوا، جس میں این سی اے کے ساتھ تصفیہ اور رقم کی منتقلی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
برطانیہ کی این سی اے نے 2018 میں 120 ملین پاوٴنڈ کی رقم منجمد کی تھی، جو بعد میں زیر التوا مقدمات اور تحقیقات کا حصہ بنی۔ لندن کی ہائیڈ پارک پلیس میں اہم جائیدادوں کی خریداری بھی اس کیس کی تحقیق کا مرکز بنی۔ اثاثہ ریکوری یونٹ نے مارچ 2019 میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ساتھ معاہدے کیے، اور کیس کے ملزمان نے عدالت سے باہر تصفیے کی کوشش بھی کی۔
نیب اور دیگر ادارے اس کرپشن کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں، اور قانونی کارروائی جاری ہے۔ شہزاد اکبر کو اس جرم کی بنیاد پر اشتہاری مجرم بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ یہ کیس پاکستان میں کرپشن کے خلاف جنگ میں ایک سنجیدہ دھچکا تصور کیا جا رہا ہے، جو اداروں کی شفافیت اور احتساب کے لیے ایک اہم موڑ ہے۔