پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور خیبرپختونخوا کے موجودہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے آج لاہور میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس میں انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ عمران خان ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں مذاکرات پر آمادہ ضرور ہیں، مگر صرف اُن افراد سے جو حقیقتاً اختیارات رکھتے ہیں اور فیصلہ سازی کی پوزیشن میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسے لوگوں سے بات نہیں کریں گے جن کے پاس صرف نمائشی عہدے ہیں اور فیصلے کہیں اور سے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بااختیار حلقے کمزور سیاسی چہروں کو ساتھ بٹھا کر بات چیت کا ماحول بنانا چاہیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا، لیکن بات چیت براہِ راست ان ہی قوتوں سے ہوگی جو ملکی فیصلوں میں عملی کردار ادا کرتی ہیں۔
گنڈاپور نے اپنی گفتگو کے دوران یہ نکتہ بھی واضح کیا کہ ہماری طرف سے مذاکرات کی خواہش کو کمزوری یا پسپائی نہ سمجھا جائے، بلکہ یہ ایک سنجیدہ سیاسی رویہ اور جمہوری طرزِعمل کا مظاہرہ ہے۔
اس پریس کانفرنس میں علی امین گنڈاپور نے یہ بھی اعلان کیا کہ تحریک انصاف نے اپنی نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے اور گزشتہ شب سے نوے روزہ عوامی تحریک کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ "آر یا پار” کی کیفیت پیدا کی جائے، کیونکہ جو کچھ ہماری جماعت اور قیادت کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ ملک کی تاریخ میں کسی کے ساتھ نہیں ہوا۔ عمران خان کے خلاف تمام کیسز بے بنیاد اور محض سیاسی انتقام کا حصہ ہیں، جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
گنڈاپور نے گفتگو کے دوران ماضی کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں دہشت گردی پر قابو پایا گیا تھا، جبکہ آج ملک ایک بار پھر بدامنی اور غیر یقینی سیاسی حالات کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ تمام فریقین آئیں اور مل بیٹھ کر میرٹ کی بنیاد پر مسائل کا حل نکالیں۔ اگر کسی نے غلطی کی ہے تو اُسے تسلیم بھی کرنا چاہیے اور سزا کے اصول سب پر یکساں لاگو ہونے چاہییں۔
ایک صحافی کی جانب سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اس سیاسی تحریک کی قیادت کون کرے گا تو گنڈاپور کا جواب دو ٹوک تھا: "قیادت خود عمران خان کریں گے، بلکہ وہ اس وقت بھی قیادت کر رہے ہیں۔” اس بیان سے یہ تاثر مزید واضح ہو گیا کہ عمران خان عملی طور پر سیاسی میدان میں موجود ہیں، چاہے وہ پابند سلاسل ہوں یا محدود وسائل میں ہوں۔
پانچ اگست سے متعلق جب سوال کیا گیا کہ کیا یہ کوئی حتمی ڈیڈلائن ہے، تو علی امین گنڈاپور نے وضاحت کی کہ اس تاریخ تک ہماری تحریک اپنے عروج پر پہنچے گی اور لائحہ عمل مکمل طور پر سامنے آ جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی باور کروایا کہ تمام اقدامات آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کیے جائیں گے اور پرامن سیاسی طریقہ اختیار کیا جائے گا۔
اس دوران ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ احتجاج میں تیزی آنے کو مذاکرات کی ناکامی یا ڈیڈلاک نہ سمجھا جائے، کیونکہ دوسری جانب سنجیدگی کا فقدان ہے۔
ان کے مطابق کچھ حلقے صرف وقت ضائع کر کے اپنے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ایسے حالات میں ہم مزید کسی دھوکے میں نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم اپنے فیصلے خود کریں گے اور کسی کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔