گزشتہ ماہ بھارت کے شہر احمد آباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز، جو بوئنگ 787 ڈریم لائنر تھی، ایک ہولناک حادثے کا شکار ہو گئی تھی۔ اس سانحے میں 260 افراد جان کی بازی ہار گئے، جسے گزشتہ ایک دہائی کا دنیا کا بدترین فضائی حادثہ قرار دیا جا رہا ہے۔
تازہ ترین پیش رفت میں ایئر انڈیا کے سی ای او کیمبل ولسن نے پیر کے روز کمپنی کے ملازمین کو ایک اندرونی مراسلہ جاری کیا ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس حادثے کی تفتیش ابھی مکمل نہیں ہوئی بلکہ یہ عمل "ابھی بہت دور ہے ختم ہونے سے”۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس وقت کسی بھی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہوگا اور کمپنی تمام ممکنہ تحقیقات کے لیے کھلے دل سے تیار ہے۔
یہ مراسلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حادثے سے متعلق ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ چند روز قبل جاری کی گئی، جس میں کئی اہم انکشافات سامنے آئے۔ رپورٹ کے مطابق، حادثے سے قبل طیارے کے کاک پٹ میں کافی الجھن اور بے یقینی کی صورتحال تھی۔ سب سے اہم اور حیران کن بات یہ تھی کہ پرواز کے دونوں انجنز میں فیول کٹ آف سوئچز تقریباً ایک ہی وقت میں فعال ہو گئے، جس کے نتیجے میں دونوں انجنز کو ایندھن کی فراہمی رک گئی۔
انجنز کو فیول نہ ملنے کے باعث طیارہ اڑان کے کچھ ہی لمحوں بعد قوتِ پرواز کھو بیٹھا اور تیزی سے نیچے گرنے لگا، جس کا انجام ایک خوفناک تباہی کی صورت میں ہوا۔
بھارت کے حادثاتی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ طیارے میں کسی قسم کی تکنیکی خرابی یا مینٹیننس کی کوتاہی موجود نہیں تھی۔ یعنی پرواز سے قبل تمام لازمی دیکھ بھال اور مرمت کے مراحل مکمل طور پر سرانجام دیے گئے تھے۔
سی ای او کیمبل ولسن نے اپنے پیغام میں ملازمین کو تاکید کی کہ وہ افواہوں سے گریز کریں اور حقائق کے سامنے آنے تک بردباری کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ادارہ مکمل طور پر شفاف اور ذمہ دارانہ انداز میں کام کر رہا ہے اور اگر مزید تحقیقات یا بیرونی انکوائری کی ضرورت پڑی تو ایئر انڈیا مکمل تعاون کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد صرف یہ نہیں کہ ہم اس سانحے کی وجوہات جانیں، بلکہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ مستقبل میں ایسے کسی واقعے کو دوبارہ رونما ہونے سے روکا جائے۔
واضح رہے کہ یہ حادثہ نہ صرف ایئر انڈیا بلکہ پوری عالمی ہوابازی کی صنعت کے لیے ایک انتہائی افسوسناک اور سبق آموز لمحہ ہے۔ جہاں ایک طرف 260 خاندانوں کے پیارے ہم سے بچھڑ گئے، وہیں اس نے ایک بار پھر ایوی ایشن سیفٹی پروٹوکولز کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
یہ حادثہ دنیا بھر میں ایوی ایشن ماہرین، کمپنیوں اور ریگولیٹری اداروں کی توجہ حاصل کر چکا ہے۔ بوئنگ کمپنی کے ماہرین بھی اس واقعے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ آیا یہ ایک انسانی غلطی تھی، سسٹم کی کوتاہی یا تربیت کا فقدان۔
رپورٹ کے مطابق، جب تک مکمل تفتیش مکمل نہیں ہو جاتی اور آخری رپورٹ جاری نہیں ہو جاتی، تب تک حادثے کی حقیقی وجوہات پر بات کرنا جلد بازی ہو گی۔
ایئر انڈیا کی جانب سے تمام متاثرہ خاندانوں سے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ متاثرین کو انصاف اور شفاف معلومات فراہم کی جائیں گی۔