تیان جن :سائنس کی دنیا میں ایک انقلابی پیشرفت سامنے آئی ہے، جو نہ صرف موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں ایک ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے، بلکہ دنیا بھر میں غذائی قلت کے مسئلے کو بھی کم کرنے میں مددگار بن سکتی ہے۔ چین کے تیان جن انسٹیٹیوٹ آف انڈسٹریل بائیو ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو سفید چینی میں تبدیل کرنے کا ایک نیا بایوٹیکنالوجیکل طریقہ دریافت کر لیا ہے۔
یہ حیران کن طریقہ بائیو ٹرانسفارمیشن سسٹم پر مبنی ہے، جو میتھنال (Methanol) کو استعمال کر کے چینی تیار کرتا ہے۔ میتھنال ایک ایسی کیمیکل شکل ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ یا صنعتی فضلے سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس انقلابی ایجاد کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ چینی بنانے کے لیے گنے یا چقندر کی ضرورت کو ختم کر سکتی ہے، جن کی کاشت کے لیے زمین، پانی اور وقت کی کثیر مقدار درکار ہوتی ہے۔
یہ جدید نظام ان ویٹرو بائیو ٹرانسفارمیشن پلیٹ فارم پر کام کرتا ہے، جس میں مخصوص انزائمز کے ذریعے کاربن گیس کو چینی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ توانائی کی کم مقدار میں بھی مؤثر ثابت ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ تکنیک اس وقت صنعتی سطح پر مکمل طور پر رائج نہیں ہوئی، لیکن اگر یہ تجرباتی مراحل سے کامیابی سے گزر گئی تو یہ مستقبل میں خوراک کی قلت، موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی اور زراعت پر پڑنے والے دباؤ جیسے مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، چین ہر سال تقریباً 50 لاکھ ٹن چینی بیرون ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ اگر یہ نئی ٹیکنالوجی کامیاب ہو گئی، تو یہ ملک کو خودکفیل بنانے اور عالمی منڈی پر انحصار کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہےیہ محض ایک تحقیق نہیں، بلکہ ایک ممکنہ انقلاب ہے، جو زمین پر کاربن کے اثرات کو کم کرتے ہوئے انسانی غذائی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔