اسلام آباد :مہنگائی سے بدحال عوام کے لیے ایک اور تلخ خبر آ گئی ہے۔ حکومت نے درآمدی چینی پر دی گئی ٹیکس چھوٹ پر آئی ایم ایف کی سخت مخالفت کے بعد 3 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا ٹینڈر منسوخ کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدے کی شرائط کی مبینہ خلاف ورزی پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے (IMF) کے اعتراض کے بعد کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (TCP) نے پرانے ٹینڈر کو منسوخ کرتے ہوئے ایک نیا نظرثانی شدہ ٹینڈر جاری کیا ہے، جس کے تحت صرف 50 ہزار میٹرک ٹن چینی کی درآمد کی اجازت دی گئی ہے۔ انٹرنیشنل سپلائرز سے بولیاں جمع کرانے کی آخری تاریخ 22 جولائی مقرر کی گئی ہے۔
یہ قابلِ ذکر ہے کہ حکومت نے پہلے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں تمام ڈیوٹیز معاف کر دی گئی تھیں، لیکن آئی ایم ایف نے اس ٹیکس فری اقدام کو "بیل آؤٹ پروگرام کی خلاف ورزی” قرار دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فیصلے ملک کی اقتصادی خودمختاری اور شفافیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔
دوسری جانب، چینی درآمد کی اجازت ملنے کے باوجود چینی کی ایکس مل قیمت میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، چینی کی ایکس مل قیمت میں 25 روپے فی کلو کا اضافہ ہوا ہے۔ مارچ 2025 میں مقرر کردہ 159 روپے فی کلو قیمت اب بڑھا کر 165 روپے فی کلو کر دی گئی ہے، حالانکہ جون 2024 میں حکومت نے یہ قیمت 140 روپے فی کلو مقرر کی تھی۔
حکومت کی جانب سے پہلے چینی کی برآمد کی بھی اجازت دی گئی تھی، اور جون تا اکتوبر 2024 کے دوران 7.5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی گئی۔ ماہرین معاشیات کے مطابق پہلے برآمد اور پھر درآمد کی پالیسی نہ صرف پالیسی سازوں کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اشیائے ضروریہ کے بحران کو بڑھاوا دینے کا سبب بھی بنتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر حکومت نے عوام کی بہتری کے لیے چینی درآمد کا فیصلہ کیا تھا تو آئی ایم ایف کی ناراضی پر کیوں گھٹنے ٹیک دیے؟ اور اگر چینی سستی کرنے کے لیے درآمد کی جا رہی تھی، تو ایکس مل قیمت میں مسلسل اضافہ کیوں کیا گیا؟