اسلام آباد/واشنگٹن امریکا کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے ایک حیران کن اور سفارتی طور پر حساس اقدام کرتے ہوئے پاکستان میں متعین ایرانی سفیر رضا امیر مقدم کو اپنی "انتہائی مطلوب افراد (Most Wanted) کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ ان پر 2007ء میں ایران سے لاپتہ ہونے والے امریکی ریٹائرڈ ایجنٹ باب لیونسن کے اغواء میں براہِ راست ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر شائع تفصیلات کے مطابق، رضا امیر مقدم کے ساتھ مزید دو ایرانی انٹیلی جنس افسران پر بھی یہی الزام ہے کہ وہ سابق امریکی ایجنٹ کی گمشدگی میں شریک تھے۔ لیونسن، جو ایک ریٹائرڈ خصوصی ایجنٹ اور سی آئی اے سے وابستہ رہے، مارچ 2007 میں ایران کے جزیرہ کیش سے پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے تھے۔ وہ اب تک دنیا کے طویل ترین لاپتہ امریکی جاسوس کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ وہ لیونسن کے اغواء میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہے اور رضا امیر مقدم کو اس مقدمے میں "کلیدی کردار ادا کرنے والا ملزم” قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی تفتیشی حکام کے مطابق، مقدم پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک ریاستی سطح کے آپریشن کے تحت مغوی کی نگرانی اور منتقلی میں مدد فراہم کی۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان اور ایران کے درمیان سفارتی، تجارتی اور سرحدی تعلقات میں وسعت دیکھی جا رہی ہے۔ رضا امیر مقدم اس وقت پاکستان میں ایران کے سفیر کے طور پر فعال کردار ادا کر رہے ہیں، اور ان پر اس قسم کا الزام بین الاقوامی سطح پر خاصی سفارتی پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے۔
ابھی تک پاکستان کی وزارتِ خارجہ یا ایرانی سفارت خانے کی جانب سے اس پر کوئی باضابطہ ردعمل جاری نہیں کیا گیا، تاہم پسِ پردہ سفارتی رابطے تیز ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ معاملہ جلد ہی بین الاقوامی سفارتی دباؤ اور قانونی پیچیدگیوں کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
ایران ماضی میں مسلسل ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے کہ اس کی ریاستی مشینری باب لیونسن کے اغواء میں ملوث ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ لیونسن ایران میں داخل نہیں ہوئے یا اگر آئے بھی تو واپس جا چکے تھے۔ تاہم امریکی حکام اس مؤقف کو تسلیم نہیں کرتے۔
باب لیونسن کی گمشدگی کے بعد امریکی حکومت نے ان کے بارے میں معلومات دینے والے کے لیے 25 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ 2020 میں امریکی حکام نے بالواسطہ طور پر تسلیم کیا تھا کہ وہ ممکنہ طور پر ایرانی حراست میں فوت ہو چکے ہیں، تاہم ان کی لاش آج تک نہیں ملی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ رضا امیر مقدم پر الزام اور ایف بی آئی کی فہرست میں شمولیت صرف ایک قانونی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایران اور امریکا کے تعلقات میں مزید کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ ساتھ ہی پاکستان جیسے تیسرے فریق ملک کو بھی اس معاملے میں محتاط سفارتی کردار ادا کرنا ہوگا۔