اسرائیلی فوجی حکام نے بدھ کے روز انکشاف کیا ہے کہ اگر غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پاتا ہے تو اسرائیلی فوج کے کچھ دستوں کو واپس بیرکوں یا گھروں میں نہیں بھیجا جائے گا بلکہ ان کی تعیناتی شام کی سرحد پر کر دی جائے گی۔فوجی حکام نےنیوز رپورٹرز سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیل شام کے شمالی محاذ پر اپنی فوجی موجودگی بڑھانے کی تیاری میں مصروف ہے، اور اس پیش رفت کو دروز قبیلے کی "حفاظت” کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے۔
درحقیقت، اسرائیل شام کے دروز قبیلے کو ایک تذویراتی اثاثے کے طور پر دیکھتا ہے اور ان کے ذریعے شام کے اندر اپنے اثر و رسوخ کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔ اسی سلسلے میں حال ہی میں دروز قبائل کے ایک وفد کو اسرائیل کے دورے پر مدعو کیا گیا، جسے اسرائیلی عزائم کی عملی شکل قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اسرائیل غزہ میں اپنی تاریخ کی سب سے طویل جنگ لڑ رہا ہے، جس کے تین بڑے اہداف ہیں: حماس کی عسکری طاقت کا خاتمہ، غزہ سے حماس کی سیاسی گرفت کا خاتمہ، اور اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے دوحا میں حماس اور اسرائیلی حکام کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، اور جنگ بندی کی صورت میں اسرائیل اپنی حکمتِ عملی کو غزہ سے شام کی طرف منتقل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دوسری جانب شام اور لبنان کی سرحدوں پر بھی اسرائیل نے اپنی فوجی موجودگی بڑھا دی ہے۔ لبنانی سرحد پر اسرائیلی فوج کی پانچ مختلف پوزیشنیں لبنان کے اندرونی علاقوں میں قائم ہیں، جبکہ شام کی سرحد کے حوالے سے اسرائیل کا دیرینہ مؤقف ہے کہ وہاں شامی فوج کو موجود نہیں ہونا چاہیے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتین یاہو نے فروری میں کہا تھا کہ شام کی سرحد کو "فوج سے پاک” رکھنا اسرائیل کے لیے ضروری ہے، اور وہ احمد الشرع کی نئی حکومت کی فوجی موجودگی کو سرحد کے قریب برداشت نہیں کرے گا۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل اس وقت مشرق وسطیٰ میں ایک نئی طاقت کے طور پر ابھرنے کی کوشش کر رہا ہے اور پورے خطے میں اپنی مرضی مسلط کرنے کی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ دروز قبیلے کو بنیاد بنا کر شام میں فوجی اثرورسوخ قائم کرنا اس وسیع تر حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جو آنے والے دنوں میں خطے کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتی ہے۔