دمشق کے جنوب میں واقع دروز اکثریتی علاقے سویدا میں کئی روزہ خونریز جھڑپوں، مسلح تصادم، اور علاقائی تناؤ کے بعد بالآخر ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں شامی حکومت اور دروز قیادت کے درمیان ایک 14 نکاتی جنگ بندی معاہدہ طے پا گیا ہے۔
شامی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’سانا‘ کے مطابق وزارت داخلہ نے معاہدے کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ اس معاہدے کے تحت سویدا شہر کو مکمل طور پر شامی ریاست میں ضم کر دیا جائے گا، سیکیورٹی اور پولیس چوکیاں قائم کی جائیں گی، اور فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کر دی جائیں گی۔ معاہدے کی نگرانی کے لیے شامی حکومت اور دروز شیوخ پر مشتمل ایک مانیٹرنگ کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی۔
دروز رہنما شیخ یوسف جربوع نے بھی معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ نہ صرف سیکیورٹی کی ضمانت فراہم کرتا ہے بلکہ ہتھیاروں کے غیر ریاستی مظاہرے کا خاتمہ، شہری زندگی کے تحفظ، اور ریاستی اداروں کی بحالی کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔ تاہم دوسری جانب بدھ کی صبح سویدا میں مسلح جھڑپوں کے دوبارہ آغاز کی خبریں سامنے آئیں جب شامی فوج نے دو دن کی لڑائی کے بعد شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس دوران درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے، اور مقامی شہری مشرقی درعا کی دیہی علاقوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔
اسی کشیدہ فضا میں اسرائیل نے بھی مداخلت کا آغاز کر دیا۔ اسرائیلی فوج نے سویدا کے گرد و نواح میں شامی فوجی ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جب کہ دروز کی حمایت میں اپنی بارڈر سیکیورٹی فورسز کو سرحد پر تعینات کر دیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے دھمکی دی کہ اگر شامی فوج سویدا سے پسپائی اختیار نہیں کرتی تو اسرائیل اپنے حملوں میں شدت لے آئے گا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق ان کارروائیوں کے پیچھے دروز برادری کے اسرائیل میں موجود اثر و رسوخ کا بھی بڑا کردار ہے، جہاں شیخ موفق طریف نے شامی افواج کی سویدا سے واپسی کا مطالبہ کیا۔
امریکی خصوصی ایلچی برائے شام، تھامس براک نے ان جھڑپوں کو "تشویشناک” قرار دیتے ہوئے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی کم کریں اور پرامن سیاسی انضمام کی طرف قدم بڑھائیں۔ امریکی عہدیداروں نے اسرائیل سے شام پر حملے روکنے کی اپیل کی تھی، لیکن اسرائیل کی جانب سے جنوبی شام میں فوجی کارروائیاں بدستور جاری رہیں۔
یاد رہے کہ حالیہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب دروز ملیشیا اور مقامی بدو قبائل کے درمیان سویدا میں خونی تصادم ہوا، جس کے بعد شامی فوج کو امن قائم کرنے کے لیے علاقے میں داخل ہونا پڑا۔
مقامی مذہبی اداروں نے دروز جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے کی اپیل کی، جب کہ اسرائیل نے اس مداخلت کو دروز کے خلاف جارحیت قرار دے کر فوجی ردعمل شروع کر دیا۔ موجودہ صورتحال نے خطے کو ایک نئی اور نازک محاذ آرائی کی طرف دھکیل دیا ہے، جہاں داخلی مفاہمت اور بیرونی مداخلت کے درمیان طاقت کی جنگ زور پکڑتی جا رہی ہے