امریکی قانون سازوں نے ایک بل پر غور کرنا شروع کر دیا ہے جس کے مطابق ان ممالک پر 500 فیصد ڈیوٹی عائد کی جائے گی جو روس سے تیل خریدتے ہیں۔ اس بل کا مقصد روسی معیشت پر دباؤ ڈالنا اور روس کی جنگی مشینری کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کو سزا دینا ہے۔
انڈیا نے اس تجویز پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ روسی تیل خریدنے کا فیصلہ عالمی حالات اور مارکیٹ کی حقیقتوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ اس کی اولین ترجیح اپنے عوام کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا ہے، نہ کہ عالمی سیاست کے حساب سے فیصلے کرنا۔ انڈیا نے امریکی موقف کو ’دوہرے معیار‘ کے طور پر پیش کیا ہے، اور کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر محتاط رہیں گے۔
16 جولائی کو نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے روسی تیل اور گیس خریدنے والے ممالک کے خلاف ثانوی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی۔ ان ممالک میں انڈیا کے علاوہ چین اور برازیل بھی شامل ہیں۔ روٹے نے کہا کہ ان ممالک پر ممکنہ ٹیرف عائد کیے جا سکتے ہیں تاکہ روس پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ یوکرین میں جنگ بند کرے۔ انڈیا نے روٹے کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف روسی تیل کے معاہدوں کی تجارتی حقیقتوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش ہے۔
اتوار کو امریکی سینیٹرز نے ایک بائیپارٹیزن بل پیش کیا جس کے تحت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو روس کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ اس بل میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ وہ ممالک جو روسی معیشت کی مدد کرتے ہیں، جیسے کہ انڈیا، چین، اور برازیل، ان پر سخت تجارتی پابندیاں عائد کی جائیں۔ سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ یہ پابندیاں روس کی جنگی مشینری کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کو نشانہ بنائیں گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادی میر پوتن کو سخت انتباہ دیا ہے کہ اگر انہوں نے 50 دنوں میں یوکرین کی جنگ کا حل نہ نکالا تو امریکہ روس کے تمام تجارتی شراکت داروں پر سخت ٹیرف عائد کرے گا۔ ٹرمپ نے کہا کہ اس وقت یہ ٹیرف 100 فیصد تک ہو سکتے ہیں۔