پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے درمیان تاریخی ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ کا فریم ورک معاہدہ کابل میں دستخط ہو گیا ہے، جس سے نہ صرف ان تینوں ممالک کے درمیان تجارتی روابط میں اضافہ ہوگا بلکہ خطے کی معیشت میں بھی نئے دروازے کھلیں گے۔ اس منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد پاکستان کی بندرگاہیں ازبکستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے لیے براہِ راست رسائی فراہم کریں گی، جو عالمی منڈیوں تک رسائی کو آسان بنائیں گے۔
پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ، سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے اس معاہدے پر دستخط کے بعد ایک ٹوئٹ میں کہا کہ یہ منصوبہ 2022/23 میں پی ڈی ایم حکومت نے شروع کیا تھا اور ان کے زیرِ نگرانی اس کی تکمیل کا عمل جاری ہے۔ اس معاہدے کے بعد اس منصوبے کی فنڈنگ کے لیے چین نے بھی اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے، اور چین کے تعاون سے کابل سے اسلام آباد تک ہائی وے کی تعمیر کی جائے گی جو سی پیک ٹو ایکسٹینشن کے تحت عمل میں آئے گی۔
اس منصوبے کا مقصد ازبکستان کو افغانستان کے ذریعے پاکستان سے جوڑنا ہے، جس سے وسطی ایشیائی ممالک کو پاکستان کی بندرگاہوں (کراچی، گوادر، پورٹ قاسم) تک براہِ راست رسائی حاصل ہو گی۔ اس سے نہ صرف ان ممالک کی تجارت میں اضافہ ہوگا، بلکہ پاکستان کو بھی اپنے برآمدات کے لیے نئے بازاروں تک رسائی ملے گی۔ اس منصوبے سے افغانستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی اور معاشی استحکام آئے گا۔
ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ ازبکستان کے شہر تِرمیز سے شروع ہو کر افغانستان کے شہروں مثلًا مزارِشریف اور لوگر سے ہوتا ہوا پاکستان میں خرلاچی (خیبر کُرم) سرحدی مقام پر پہنچے گا۔ یہاں سے یہ لائن پاکستان کے پشاور یا کوہاٹ ریلوے سے جڑ جائے گی۔ اس ٹریک میں افغانستان میں تقریباً 573 کلومیٹر کا نیا ریلوے ٹریک بنانا شامل ہے، اور منصوبے کی کل لاگت 4 سے 5 ارب ڈالر کے درمیان ہو گی۔
اس منصوبے کے ذریعے پاکستان اور ازبکستان کے درمیان مال کی ترسیل کا وقت پانچ دن کم ہو جائے گا اور لاگت میں 40 فیصد کمی آئے گی۔ اس راہداری سے وسطی ایشیا کے ممالک کو پاکستانی بندرگاہوں تک رسائی ملے گی، جس سے عالمی منڈیوں تک رسائی آسان ہو گی۔ افغانستان کے لیے اس منصوبے سے نہ صرف معاشی استحکام حاصل ہوگا، بلکہ اس سے امن و سکون کی فضا بھی قائم ہو گی۔
یہ منصوبہ تکنیکی تفصیلات کے طے ہونے کے بعد 2027 تک مکمل ہو جائے گا، اور سنہ 2030 تک مکمل آپریشنل ہونے کی توقع ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے سالانہ 15 ملین ٹن سامان کی نقل و حمل کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔