نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے رکن اور نیویارک سٹی کے میئر کے امیدوار ظہران ممدانی نے مشرقِ وسطیٰ کے جاری بحران، بالخصوص اسرائیل غزہ جنگ کی میڈیا کوریج پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بی بی سی جیسے عالمی میڈیا ادارے پر تعصب کا الزام لگاتے ہوئے ممدانی نے کہا کہ بی بی سی کے زبان کے انتخاب میں واضح دہرا معیار نظر آتا ہے، جس سے عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا جا رہا ہے۔
ظہران ممدانی نے اپنی وائرل سوشل میڈیا پوسٹ (X/Twitter) میں بی بی سی پر سخت تنقید کی، ان کا کہنا تھا کہ بی بی سی ہمیشہ "ایرانی حمایت یافتہ حوثی” اور "حماس کے زیرِ انتظام اسپتال” جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے، لیکن کبھی "امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی فوج (IDF)” یا "ملزم جنگی مجرم بنیامین نیتن یاہو” کیوں نہیں کہتا؟
ممدانی نے اس دہرا معیار بے نقاب کرنے کی کوشش کی اور سوال کیا کہ یہ دوہرا معیار کیوں؟ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا، خاص طور پر بی بی سی جیسے عالمی نشریاتی ادارے، عوام کو خبر دیتے وقت الفاظ کے استعمال سے رائے عامہ کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلسطینیوں یا ایران سے وابستہ گروہوں کے لیے ہمیشہ منفی شناختی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، جبکہ اسرائیلی فوج یا اسرائیلی قیادت کو اس طرح کی کوئی وضاحت نہیں ملتی۔
ظہران ممدانی جو فلسطینیوں کے حقوق کے سرگرم حامی ہیں، نے بی ڈی ایس (BDS) تحریک کی حمایت کی ہے اور غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو "نسل کشی” قرار دیا ہے۔ وہ ہمیشہ بین الاقوامی سطح پر فلسطینی عوام کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں اور اس بات کا عزم رکھتے ہیں کہ مذہبی یا قومی بنیادوں پر شہریوں کے حقوق میں تفریق نہیں ہونی چاہیے۔
ظہران ممدانی کے بیان پر جہاں دنیا بھر میں مختلف رائے سامنے آئی، وہیں امریکی سیاست میں بھی اس پر بحث کا آغاز ہو گیا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ممدانی کی شدید تنقید کی اور انہیں "100 فیصد کمیونسٹ پاگل” قرار دیا۔ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پر لکھا
وہ نیویارک سٹی کے لیے خطرناک ہوں گے
ایک Fox News انٹرویو میں ٹرمپ نے مزید کہا وہ کمیونسٹ ہیں اور خود اعتراف کرتے ہیں۔ یہ نیویارک کے لیے بہت برا ہوگا۔” ٹرمپ کا یہ بیان ممدانی کے لیے چیلنج کا باعث بن گیا، خاص طور پر جب انہوں نے ممدانی کے سیاسی نظریات پر سوالات اٹھائے۔
ظہران ممدانی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ کسی ایسے ملک کی حمایت نہیں کرتے جو مذہب یا کسی اور بنیاد پر شہریوں میں تفریق کرتا ہو۔ ان کا ماننا ہے کہ جیسے امریکہ میں مساوات کی بات کی جاتی ہے، ویسی ہی برابری دنیا کے ہر ملک میں ہونی چاہیے۔ ممدانی نے اس بات پر زور دیا کہ فرقہ وارانہ سیاست اور نسلی یا مذہبی تفریق کے خلاف لڑنا ضروری ہے۔
ممدانی کے بیانات سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے، جہاں بڑی تعداد میں صارفین نے ان کے موقف کی حمایت کی۔ صارفین نے کہا کہ ممدانی نے واقعی سخت سوالات پوچھے ہیں اور ان کے سوالات نے کئی معاصر مسائل پر روشنی ڈالی۔ دوسری جانب، ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے ممدانی کے مؤقف کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان پر "کمیونسٹ” ہونے کا الزام عائد کیا۔
ظہران ممدانی کی بی بی سی اور عالمی میڈیا پر کی جانے والی تنقید نے اسرائیل-غزہ جنگ اور مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی مسائل پر عالمی سطح پر بحث کو مزید گرم کر دیا ہے۔ ممدانی کا کہنا ہے کہ عالمی میڈیا ادارے بعض مخصوص گروپوں کو جان بوجھ کر منفی طور پر پیش کرتے ہیں، جب کہ اسرائیلی فوج اور اسرائیلی قیادت کو اس طرح کی وضاحتوں سے بچایا جاتا ہے۔