لندن: برطانیہ کے رائل کورٹس آف جسٹس میں سابق پاکستانی فوجی افسر اور یوٹیوبر عادل فاروق راجہ کے خلاف ہتکِ عزت کا اہم مقدمہ شروع ہو گیا ہے، جو ریٹائرڈ برگیڈیئر راشد نصیر کی جانب سے دائر کیا گیا ہے۔ مدعی کے مطابق راجہ نے سوشل میڈیا پر جھوٹے اور توہین آمیز الزامات لگا کر نہ صرف ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ ساکھ کو نقصان پہنچایا، بلکہ ان کے خاندان کو بھی شدید خطرات اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔
عدالت میں سماعت کے دوران برگیڈیئر نصیر نے گواہی دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ راجہ کے بیانات سے متاثر ہو کر ایک شخص نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی، جو بعد میں گرفتار ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان الزامات نے ان کی بیٹی اور بیٹے کے برطانوی یونیورسٹیوں میں داخلے کے منصوبوں کو بھی متاثر کیا اور انہیں بچوں کو امریکہ منتقل کرنا پڑا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ عادل راجہ نے کرپشن، عدالتی عمل میں مداخلت، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے سنگین الزامات لگائے تھے، جو مدعی کے مطابق بے بنیاد ہیں۔ راجہ نے سماعت میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی، جبکہ ان کے گواہان میں سابق مشیر شہزاد اکبر، صحافی شاہین صہبائی اور سید اکبر حسین شامل تھے، جنہوں نے امریکہ سے آن لائن گواہی دی۔
مدعی نے مؤقف اختیار کیا کہ راجہ کے الزامات سے ان کا سوشل سرکل، انٹیلیجنس کمیونٹی اور ذاتی تعلقات متاثر ہوئے، جبکہ کئی دھمکی آمیز کالز اور آن لائن حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مدعا علیہ کے وکیل نے ان فون کالز کے شواہد پر سوال اٹھایا، جس پر برگیڈیئر نصیر نے جواب دیا کہ وہ اپنے قریبی افراد کو لاحق خطرات کے باعث تفصیلات فراہم نہیں کر سکتے۔
یاد رہے، 2024 میں برطانوی عدالت نے قرار دیا تھا کہ عادل راجہ کے 10 میں سے 9 بیانات ہتکِ عزت کے زمرے میں آتے ہیں۔ عدالت نے راجہ کی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ رواں سال عدالتی اخراجات اور تاخیر پر ان پر 22 ہزار پاؤنڈ سے زائد جرمانہ بھی عائد ہو چکا ہے۔
عدالت اب اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ آیا راجہ کے الزامات حقائق پر مبنی، رائے یا جھوٹے دعوے تھے، اور آیا وہ برطانوی قانون کے مطابق "سچ” یا "عوامی مفاد” کے تحفظ کے دائرے میں آتے ہیں یا نہیں۔
مقدمے کی کارروائی 24 جولائی تک جاری رہے گی، جس کے دوران دونوں فریقین اپنے گواہان اور شواہد پیش کریں گے، بعض گواہوں کو ویڈیو لنک کے ذریعے گواہی کی خصوصی اجازت دی گئی ہے۔