یورپی کمیشن کی صدر اُرسولا فان ڈیر لائن نے غزہ کی تازہ ترین صورتحال پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ سے آنے والی تصاویر ناقابلِ برداشت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو نشانہ بنانا کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں، اور بین الاقوامی انسانی قوانین کا احترام نہایت ضروری ہے۔
منگل کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جاری بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ یورپی یونین ایک بار پھر مطالبہ کرتا ہے کہ انسانی امداد کو آزادانہ، محفوظ اور فوری طور پر پہنچایا جائے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، صرف مئی کے آخر سے اب تک ایک ہزار سے زائد فلسطینی امدادی سامان لینے کی کوشش میں جاں بحق ہو چکے ہیں، جب کہ 6,500 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان میں زیادہ تر شہری وہ تھے جو امدادی مراکز کے قریب جمع تھے۔
اقوام متحدہ کے مشاہدات کے مطابق، زیادہ تر ہلاکتیں انہی علاقوں میں ہوئیں جہاں غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) نامی ایک متنازع ادارہ امداد تقسیم کر رہا تھا۔
27 مئی سے قبل تقریباً ڈھائی ماہ تک اسرائیل نے غزہ میں خوراک، پانی، ادویات اور دیگر بنیادی اشیاء کی ترسیل مکمل طور پر بند کر رکھی تھی۔ اسرائیل کا مؤقف تھا کہ اقوام متحدہ کے تحت چلنے والے امدادی نظام میں حماس امداد ہتھیا رہی تھی۔
اسی بنیاد پر اسرائیل اور امریکا کی حمایت سے "GHF” کو متبادل نظام کے طور پر سامنے لایا گیا، مگر فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ غیر شفاف، غیر منظم اور متعصبانہ رویہ رکھتا ہے۔
عینی شاہدین اور فلسطینی حکام کے مطابق، ان امدادی مقامات پر اسرائیلی افواج نے نہ صرف انتباہی فائرنگ کی بلکہ کئی مواقع پر بلا اشتعال فائرنگ بھی کی گئی۔ جون کے آخر میں اسرائیلی فوج نے اعلان کیا تھا کہ شہریوں سے تصادم کم کرنے کے لیے راستے منظم کیے جا رہے ہیں، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہلاکتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
صدر اُرسولا کا بیان یورپی یونین کی سطح پر ایک واضح اشارہ ہے کہ عالمی برادری مزید خاموش نہیں رہ سکتی۔ غزہ میں انسانی المیہ صرف فلسطینی عوام کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا امتحان بن چکا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ نہ صرف امداد بحال ہو، بلکہ عام شہریوں کی جانیں بھی محفوظ رہیں۔