ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق، پاسدارانِ انقلاب کے انٹیلی جنس یونٹ نے ایران کے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ دشمن کی خفیہ ایجنسیوں نے بھرتی کے عمل کو تیز کر دیا ہے، اور ان کا مقصد ایران کے اندر جاسوسی کی سرگرمیاں بڑھانا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان کئی عشروں سے جاری خفیہ جنگ میں نئی شدت آئی ہے، خاص طور پر گزشتہ ماہ کی 12 روزہ فضائی جنگ کے بعد، جس میں اسرائیل نے ایران کے متعدد فوجی کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کو ہلاک کیا تھا۔
ایران کی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی تشویش کا مرکز اسرائیلی جاسوسی ایجنسی "موساد” ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ ایرانی ریاستی سسٹمز میں دراندازی کی کوشش کر رہی ہے۔ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے انٹیلی جنس یونٹ نے ایران کے شہریوں کو انتباہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دشمن کی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیاں ایک نئی سطح پر پہنچ چکی ہیں اور ایرانی عوام کو اس کے بارے میں مزید آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے۔
پچھلے ماہ کی فضائی جنگ نے ایران کے دفاعی اور سکیورٹی ڈھانچے کو چیلنج کیا، جس میں اسرائیل کی جانب سے ایران کی فوجی تنصیبات اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل کی کامیاب کارروائیوں نے ایران کی سکیورٹی کے حوالے سے سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ ایران کو اب موساد کی ممکنہ دراندازی کے خطرات کا سامنا ہے، جس سے ملک کی داخلی سکیورٹی مزید پیچیدہ ہو چکی ہے۔
پاسدارانِ انقلاب کے حکام کا کہنا ہے کہ دشمن کے جاسوسی نیٹ ورک کی تلاش اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے انٹیلی جنس آپریشنز کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ موساد کے ایجنٹس ایران میں اپنے ذرائع کو فعال کر رہے ہیں اور ممکنہ طور پر ایرانی حکومت کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔
موساد کا اثر و رسوخ ایران کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اس ایجنسی کے بارے میں رپورٹس ہیں کہ وہ ایران میں اپنے آپریشنز کو بڑھا رہی ہے، اور اس کے ایجنٹس ایرانی فوج، جوہری پروگرام، اور حکومتی اداروں میں اہم عہدوں پر موجود ہیں۔ ایران کے لیے اس خطرے کا مقابلہ کرنے کی ضرورت اس وقت بڑھ گئی ہے جب بین الاقوامی سطح پر اس کے جوہری پروگرام کو لے کر سخت دباؤ جاری ہے۔
اس بات کی چہ مگوئیاں ہیں کہ ایران کی پاسدارانِ انقلاب اپنے اندرونی سکیورٹی نیٹ ورک کو مزید فعال کرے گی تاکہ موساد کی سرگرمیوں کو روکا جا سکے۔ لیکن یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاسدارانِ انقلاب اپنے روایتی انٹیلی جنس طریقوں کے ذریعے اسرائیلی ایجنٹس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو پائے گی، یا پھر اس کے لیے عالمی سطح پر مزید تعاون کی ضرورت ہو گی؟