یورپ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے سے متعلق بات چیت ایک بار پھر استنبول میں شروع ہو گئی ہے، جس کا مقصد 2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) کو دوبارہ بحال کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے۔
آج یہ مذاکرات ایرانی قونصل خانے میں بند دروازوں کے پیچھے منعقد ہوئے، جس میں ایران کی نمائندگی نائب وزرائے خارجہ مجید تخت روانچی اور کاظم غریب آبادی کر رہے ہیں۔
اس ملاقات میں یورپی اتحاد کے تین اہم ممالک یعنی برطانیہ، فرانس اور جرمنی (جنہیں مجموعی طور پر یورپی تِرائی، یا E3 کہا جاتا ہے) نے شرکت کی۔
ان مذاکرات کا مقصد ان سفارتی کوششوں کو دوبارہ زندہ کرنا ہے جو کچھ عرصے سے خطے میں کشیدگی کے باعث تعطل کا شکار تھیں۔
جمعے کی صبح جب متعلقہ وفود کی گاڑیاں ایرانی قونصل خانے میں داخل ہوئیں تو یہ واضح پیغام تھا کہ فریقین ایک بار پھر سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر واپس آ چکے ہیں۔ اگرچہ یہ ملاقات میڈیا سے دور رکھی گئی اور بند دروازوں کے پیچھے ہوئی، تاہم اس کی اہمیت سفارتی حلقوں میں نمایاں ہے۔
یہ ملاقات 16 مئی کو استنبول میں ہونے والی پہلی نشست کا تسلسل ہے، جس میں فریقین نے مستقبل میں رابطے قائم رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔
موجودہ بات چیت یورپی دستخط کنندگان کی درخواست پر بلائی گئی ہے، جو اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ 2015 کے معاہدے کی روح کو برقرار رکھا جا سکے، جسے امریکہ نے 2018 میں چھوڑ دیا تھا۔
دوسری طرف، ان مذاکرات کے ساتھ ساتھ ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ بات چیت بھی ایک عرصے سے زیرِ غور ہے، لیکن وہ جون 13 کو اس وقت معطل ہو گئی جب اسرائیل نے ایرانی سرزمین پر فضائی حملہ کیا۔
اس واقعے کے بعد بین الاقوامی سطح پر سفارتی کوششوں کو شدید دھچکا لگا اور معاملات جمود کا شکار ہو گئے۔
اس تمام صورتحال کے پیش نظر، استنبول میں جاری یہ نئی کوشش اس بات کی علامت ہے کہ فریقین ابھی بھی سفارت کاری کے دروازے بند نہیں کرنا چاہتے۔ اگرچہ امریکہ براہ راست اس بات چیت میں شامل نہیں، تاہم یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ مذاکرات کا دائرہ وسیع ہو اور بالواسطہ روابط کے ذریعے پیش رفت کی جا سکے۔
ایرانی قیادت کی جانب سے یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ ان کے قومی مفادات اور جوہری پروگرام کے پرامن پہلو کو تسلیم کیا جائے۔
یورپی ممالک کی خواہش ہے کہ ایران دوبارہ مکمل طور پر معاہدے کی حدود میں آئے اور بین الاقوامی معائنہ کاروں کو رسائی دے، تاکہ مشرق وسطیٰ میں استحکام کی فضا قائم ہو سکے۔