بینکاک/پنم پن:خطے میں قیامِ امن کی کوششوں کو اُس وقت دھچکا لگا جب تھائی لینڈ نے کمبوڈیا پر جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کا الزام عائد کر دیا۔ تھائی وزارتِ خارجہ کے مطابق، رات کے اندھیرے میں سیساکیت صوبے میں کمبوڈیائی افواج نے چھوٹے ہتھیاروں اور دستی بموں سے حملہ کیا، جو بدھ کی صبح تک جاری رہا۔ تھائی حکام نے اس حملے کو ملائیشیا میں طے پانے والے امن معاہدے کے منہ پر طمانچہ قرار دیا، جس کا مقصد پانچ دن کی خونریز جھڑپوں کے بعد 800 کلومیٹر طویل سرحد پر لڑائی کو روکنا تھا۔
فرانسیسی خبررساں ادارے AFP کے مطابق، دونوں ممالک نے امریکی ثالثی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، جس کا مقصد سرحدی تنازع کے باعث پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنا تھا۔ تاہم صرف 48 گھنٹے بعد تھائی فوج نے کمبوڈیا پر اعتماد توڑنے اور حملہ کرنے کا الزام لگایا۔
اب تک کی تصدیق شدہ ہلاکتوں کے مطابق، تھائی لینڈ کے 15 فوجی اور 15 شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ کمبوڈیا نے 8 شہریوں اور 5 فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ جھڑپوں کے باعث دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں سے 3 لاکھ سے زائد افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی، جس نے انسانی بحران کو جنم دیا۔
کمبوڈیا نے تھائی الزامات کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی طرف سے کسی بھی قسم کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ تاہم تھائی حکومتی ترجمان جیرایو ہوآنگساب نے دعویٰ کیا کہ حملے کے باوجود تھائی فورسز نے صورتحال پر قابو پایا، اور بدھ کی صبح 8 بجے کے بعد حالات نسبتاً پرامن ہو چکے تھے۔ سرحد پر موجود فوجی کمانڈرز کی منگل کو ملاقات بھی ہوئی، جہاں غلط فہمیوں کو روکنے کے لیے فوجی نقل و حرکت پر پابندی پر اتفاق کیا گیا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق امن معاہدہ محض سفارتی ہنر مندی نہیں بلکہ تجارتی مفادات کا نتیجہ بھی تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ممالک پر تجارتی محصولات میں اضافے کی دھمکیاں دے چکے ہیں، اور تھائی لینڈ و کمبوڈیا دونوں امریکہ سے ممکنہ معاہدے کے لیے نرم گوشہ چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امن معاہدے کے لیے ٹرمپ کی مداخلت اہم سمجھی جا رہی ہے، لیکن حالیہ جھڑپیں اس "امن” کی نرمی پر سوالیہ نشان بن گئی ہیں۔