بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ کے ایوان میں ایک طویل خطاب کیا جس میں اُنہوں نے ’آپریشن سندور‘ کے حوالے سے اپنی حکومت اور فوجی کامیابیوں کو نمایاں کیا، تاہم اپوزیشن کے کئی اہم سوالات کے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔
یہ خطاب تقریباً ایک گھنٹہ اور 40 منٹ تک جاری رہا، مگر پہلگام حملے میں ممکنہ سکیورٹی کوتاہیوں، پاکستان کی فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں بھارتی طیاروں کے مار گرائے جانے کی خبروں اور جنگ بندی کے حوالے سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوؤں پر مودی نے لب کشائی نہیں کی۔
اپوزیشن کے لیڈر راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں مودی حکومت سے براہِ راست سوالات کیے تھے کہ آیا مئی 2025 کی جنگ کے دوران بھارتی فضائیہ کے کئی طیارے پاکستانی فوج کے ہاتھوں مار گرائے گئے تھے؟ اس کے علاوہ اُنہوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ اگر صدر ٹرمپ کا جنگ بندی کے حوالے سے بیان غلط ہے تو مودی واضح طور پر اس کی تردید کریں۔ تاہم وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر میں ان سوالات کو نظرانداز کرتے ہوئے کانگریس پارٹی پر سخت تنقید کی اور الزام لگایا کہ کانگریس اب "پاکستان کی ترجمان” بن چکی ہے اور اس کے پاس عوام کو بتانے کے لیے کوئی نیا مؤقف باقی نہیں بچا۔
مودی نے الزام عائد کیا کہ بھارت میں دہشت گردی اور پاکستان و چین کے ساتھ موجودہ تنازعات کی بنیاد سابق وزرائے اعظم جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی اور منموہن سنگھ کی "کمزور اور غلط پالیسیوں” نے رکھی۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر 1948 میں نہرو بھارتی فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم نہ دیتے تو آج کشمیر کا وہ حصہ بھارت کے قبضے میں ہوتا جس پر پاکستان قابض ہے۔ اکسائی چن کے معاملے پر بھی مودی نے نہرو کو موردِ الزام ٹھہرایا اور کہا کہ اُن کی ناعاقبت اندیشی کے باعث 38 ہزار مربع کلومیٹر رقبہ چین کے پاس چلا گیا۔
اپنی تقریر میں مودی نے ’آپریشن سندور‘ کی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ فوج نے صرف 22 منٹ میں تمام اہداف مکمل کر لیے، پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو پہلی بار نشانہ بنایا گیا اور پاکستان کی جوہری دھمکیوں کو بے اثر کر دیا گیا۔ مودی کے مطابق "ہم نے دنیا کو دکھا دیا کہ بھارت کسی دھمکی سے خوفزدہ نہیں ہوگا، ہم گولی کا جواب گولے سے دیں گے۔”
وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر میں کانگریس کے رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 1971 کی جنگ کے دوران جب بھارتی فوج نے پاکستان کے 93 ہزار فوجیوں کو قید کیا اور ہزاروں مربع کلومیٹر علاقہ اپنے کنٹرول میں لیا، تو اندرا گاندھی اگر چاہتیں تو ان قیدیوں کے بدلے پاکستان سے مقبوضہ کشمیر واپس لے سکتی تھیں، مگر اُنہوں نے ایسا نہیں کیا اور بلاشرط قیدیوں کو واپس کر دیا۔
مودی نے منموہن سنگھ کی حکومت پر بھی طنز کیا کہ ممبئی حملوں کے بعد سخت کارروائی کرنے کے بجائے پاکستان کے ساتھ ڈوزیئر اور فوٹوز کے تبادلے میں وقت ضائع کیا گیا۔ اسی طرح سندھ طاس معاہدے کو بھارت کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو بھارت ان دریاؤں پر بڑے منصوبے بنا سکتا تھا، تاہم اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی حکومت نے اس غلطی کو درست کیا اور معاہدے کو مؤخر کر دیا۔
خطاب کے دوران مودی نے دعویٰ کیا کہ دنیا کے تقریباً تمام بڑے ممالک نے پہلگام حملے کی مذمت کی اور پاکستان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔ اُن کے بقول، امریکہ کے نائب صدر نے مئی کی لڑائی کے دوران اُن سے رابطہ کرنے کی کئی کوششیں کیں اور بعد میں بتایا کہ پاکستان ایک بڑا حملہ کرنے والا ہے، جس پر مودی نے انہیں کہا کہ "پاکستان کو اس کا بہت بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔”
تاہم مودی کے اس بیان کے باوجود اپوزیشن اور سوشل میڈیا پر یہ بحث جاری رہی کہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں نہ تو ٹرمپ کا ذکر کیا اور نہ ہی چین یا ترکی کا۔ راہل گاندھی نے خطاب کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مودی نے ٹرمپ کے بیانات کی تردید کھل کر نہیں کی، حالانکہ ٹرمپ نے تقریباً 29 بار دعویٰ کیا کہ جنگ بندی میں اُن کا کردار رہا ہے۔
صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے بھی مودی کی تقریر پر طنز کیا کہ انہوں نے 14 بار جواہر لعل نہرو کا ذکر کیا لیکن چین کا نام تک نہیں لیا۔ کانگریس کی رہنما سپریا شریناٹے نے کہا کہ مودی نے اپنی 102 منٹ کی تقریر میں 15 بار نہرو اور 50 بار کانگریس کا ذکر کیا مگر ٹرمپ اور چین پر خاموش رہے۔
کئی صارفین نے اس بات پر بھی توجہ دلائی کہ وزیر اعظم نے پہلگام حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کے نام نہیں لیے جبکہ راہل اور پرینکا گاندھی نے متاثرین کا ذکر کیا۔
صحافی راجدیپ سردیسائی نے ایکس پر لکھا کہ "مودی نے آپریشن سندور پر اپنی تقریر میں ہر سات منٹ بعد نہرو کا ذکر کیا، گویا ماضی کے سائے آج بھی بھارتی سیاست پر حاوی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں حال اور مستقبل پر توجہ دینی چاہیے۔”
اسی دوران کانگریس کے رہنما گرجیت سنگھ اوجلا نے مطالبہ کیا کہ اگر بھارتی فضائیہ نے کوئی طیارہ نہیں کھویا تو مودی کو تمام رافیل طیاروں کی پریڈ کرانی چاہیے تاکہ دنیا کو دکھا سکیں کہ بھارت نے فضائی برتری برقرار رکھی۔
صحافی وجے ترویدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے اگرچہ کئی سوالات کے جواب دیے، لیکن سب سے اہم سوالات پر خاموشی اختیار کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے یہ واضح نہیں کیا کہ جنگ بندی کیوں کی گئی اور سکیورٹی میں جو خامیاں سامنے آئیں ان پر کوئی تسلی بخش وضاحت نہیں دی گئی۔
یوں مودی کی یہ تقریر زیادہ تر کانگریس اور سابق حکمرانوں پر تنقید، ماضی کی جنگوں کے تذکرے اور فوجی کامیابیوں کے دعوؤں تک محدود رہی، جبکہ عوام اور اپوزیشن کے اہم سوالات بدستور تشنہ جواب ہیں۔