امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے خلاف ایک اور نیا تنازعہ کھڑا کرتے ہوئے ایران سے تیل کی خریداری میں ملوث 7 بھارتی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی، عدم استحکام اور اپنی عوام کی تکالیف بڑھانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ ان پابندیوں کا مقصد ایران کی معیشت کو مزید کمزور کرنا اور اس کے عالمی اثرات کو محدود کرنا ہے۔
امریکا نے اس کے ساتھ ہی 20 دیگر کمپنیوں اور 10 جہازوں کے خلاف بھی کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے، جو ایرانی پیٹرولیم مصنوعات یا تیل کی ترسیل میں ملوث ہیں۔ ان 20 کمپنیوں میں سے 7 کمپنیاں بھارت میں قائم ہیں، جو بین الاقوامی تجارت میں بھارتی پوزیشن پر سوالیہ نشان لگا رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بھارت کی اقتصادی حالت اور تجارت پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
یہ پابندیاں صرف ایران تک محدود نہیں ہیں؛ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بھارت پر 25 فیصد ٹیرف اور اضافی جرمانے کی پالیسی نے دونوں ممالک کے تعلقات میں نیا تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ بھارت نے تجارتی مفادات کے لیے غیر منصفانہ طریقے اپنائے ہیں، جس کا جواب امریکہ نے سخت اقتصادی پابندیوں کی صورت میں دیا ہے۔
اس سب کے درمیان، ٹرمپ نے بھارت کو عالمی سطح پر شرمندہ کیا ہے، اور "آپریشن سندور” میں 5 رافیل طیاروں کی تباہی کا ذکر کر کے بھارتی حکومت کے دفاعی کمزوری کو اجاگر کیا۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بھارت کی عسکری پالیسی میں اس نوعیت کی ناکامیوں نے مودی حکومت کو عالمی سطح پر بدنام کیا ہے۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کے حوالے سے کریڈٹ لینے کی کوششیں بھی کی ہیں، جس سے بھارت کی سیاسی پوزیشن مزید کمزور ہو رہی ہے۔
مودی حکومت کے لیے یہ سنگین مسائل بھارتی سیاست اور معیشت کے لیے ایک نیا بحران ثابت ہوسکتے ہیں۔ عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے یہ سخت اقدامات بھارت کے لیے ایک نیا سیاسی اور معاشی بحران پیدا کر سکتے ہیں، جس کے اثرات طویل مدت تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ بھارت کی پوزیشن عالمی سطح پر مضبوط نہیں رہی، اور ٹرمپ کا دباؤ اس بحران کو مزید بڑھا رہا ہے۔