واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک اور بڑا جھٹکا اُس وقت سامنے آیا جب امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسّنٹ نے بھارت کے ساتھ تجارتی مذاکرات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ اور ان کی پوری ٹیم بھارت کے رویے سے مایوس ہے۔ مذاکرات کی رفتار نہایت سست ہے
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کی مصنوعات پر 25 فیصد درآمدی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام بھارت کو روس سے تیل اور دفاعی سامان کی خریداری سے باز رکھنے کے لیے اُٹھایا گیا ہے۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ بھارت عالمی پابندیوں کا فائدہ اٹھا کر روس سے سستا خام تیل خرید رہا ہے، اور اسے ریفائن کرنے کے بعد عالمی مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے۔
بیسّنٹ نے سی این بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا یہ کوئی تعمیری عالمی کردار نہیں۔ بھارت کا یہ رویہ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچارہا ہے
امریکہ کا ماننا ہے کہ بھارت کی یہ پالیسی ماسکو کی جنگی مشین کو زندہ رکھے ہوئے ہے، جو یوکرین جنگ کو طویل کرنے کا سبب بن رہی ہے۔مارکو روبیو کا سخت ردعمل یہ دونوں ملک اپنی مردہ معیشتوں سمیت ڈوب جائیں
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کھل کر بھارت پر تنقید کی، اور کہا کہ مجھے پروا نہیں بھارت اور روس کیا کرتے ہیں۔ اگر یہ دونوں اپنی مردہ معیشتوں کے ساتھ ڈوب جائیں تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ بیان نہ صرف سفارتی کشیدگی کا مظہر ہے بلکہ مستقبل میں بھارت-امریکہ تعلقات پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔بھارتی حکومت نے امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان اقدامات کے قانونی اور معاشی اثرات کا جائزہ لے رہی ہے۔ بھارتی جریدہ "انڈیا ٹوڈے” کے مطابق، بھارت فی الحال کسی جوابی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا، لیکن وہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کی دھمکی کے بعد بھارت کی سرکاری آئل ریفائنریز نے کچھ عرصے کے لیے روسی تیل کی خریداری روک دی تھی، لیکن اب دوبارہ معاہدے بحال کیے جا رہے ہیں۔
بھارت دنیا کا تیسرا بڑا خام تیل درآمد کرنے والا ملک ہے، اور حالیہ برسوں میں وہ روس کے سمندری تیل کا سب سے بڑا خریدار بھی بن چکا ہے۔
ٹرمپ نے 14 جولائی کو اعلان کیا تھا کہ روس سے تیل خریدنے والے ممالک پر 100 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا