غزہ شہر کے الشفا اسپتال کے مرکزی دروازے پر قائم صحافیوں کے لیے مخصوص ایک خیمے پر اسرائیلی فضائی حملے میں الجزیرہ کے پانچ صحافی ہلاک ہوگئے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مرنے والوں میں نامہ نگار انس الشریف اور محمد قریقیہ، کیمرہ مین ابراہیم زاہر، محمد نوفل اور مؤمن علیوہ شامل تھے۔
یہ حملہ کل کیا گیا، اور الجزیرہ نے اسے "پری پلانڈ اور پری میڈیٹیڈ حملہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صحافت کی آزادی پر ایک واضح اور سنگین حملہ ہے۔ حملے کے کچھ ہی دیر بعد اسرائیلی فوج (IDF) نے ایک بیان میں تصدیق کی کہ اس کا اصل ہدف انس الشریف تھا، جس پر الزام لگایا گیا کہ وہ حماس کے ایک دہشت گرد سیل کا سربراہ تھا۔ فوج نے باقی صحافیوں کا ذکر نہیں کیا جن کی جان اس واقعے میں گئی۔
الجزیرہ کے مطابق اس حملے میں مجموعی طور پر سات افراد مارے گئے۔ ابتدا میں کہا گیا کہ چار صحافی مارے گئے ہیں، لیکن بعد میں یہ تعداد پانچ کر دی گئی۔ الجزیرہ کے مینیجنگ ایڈیٹر محمد معوض نے بی بی سی کو بتایا کہ انس الشریف ایک باقاعدہ تصدیق شدہ صحافی تھے، اور غزہ میں ہونے والے حالات کو دنیا تک پہنچانے والی "واحد آواز” تھے۔
جنگ کے دوران اسرائیل نے بین الاقوامی صحافیوں کو غزہ میں آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت نہیں دی، اس لیے دنیا کے زیادہ تر بڑے میڈیا ادارے مقامی رپورٹرز پر ہی انحصار کر رہے ہیں۔ معوض نے کہا کہ یہ صحافی فرنٹ لائن پر نہیں بلکہ اسپتال کے باہر اپنے خیمے میں موجود تھے جب انہیں نشانہ بنایا گیا۔ ان کے مطابق، "یہ واضح ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ کے اندر سے آنے والی ہر قسم کی رپورٹنگ کو خاموش کرنا چاہتی ہے۔”
حملے سے کچھ لمحے پہلے 28 سالہ انس الشریف سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اسرائیلی بمباری کے بارے میں پوسٹ کر رہے تھے۔ ان کی موت کے بعد شائع ہونے والی ایک پوسٹ غالباً پہلے سے لکھی گئی تھی اور کسی دوست نے شائع کی۔ حملے کے بعد کے مناظر کی دو ویڈیوز بی بی سی ویری فائی نے تصدیق کی ہیں، جن میں لوگوں کو لاشیں اٹھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک شخص نے میڈیا ویسٹ پہن رکھی تھی اور وہ کہہ رہا تھا کہ یہ انس الشریف کی لاش ہے۔
اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ انس الشریف ایک صحافی کے بھیس میں تھے اور اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں پر راکٹ حملے کرانے کے ذمہ دار تھے۔ فوج کا کہنا تھا کہ اس کے پاس ان کی عسکری وابستگی کے شواہد ہیں، جن میں دہشت گردی کی تربیت کے کورسز کی فہرست بھی شامل ہے۔
گزشتہ مہینے الجزیرہ، اقوام متحدہ اور کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) نے الگ الگ بیانات میں خبردار کیا تھا کہ انس الشریف کی جان خطرے میں ہے اور ان کے تحفظ کا مطالبہ کیا تھا۔ CPJ کی چیف ایگزیکٹیو جوڈی گنزبرگ نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیلی حکام نے یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی شواہد پیش نہیں کیے کہ جن صحافیوں کو ہلاک کیا گیا وہ واقعی دہشت گرد تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک پرانا رویہ ہے کہ کسی صحافی کو مارنے کے بعد اسرائیل اسے دہشت گرد قرار دیتا ہے، لیکن اس دعوے کی تائید کے لیے کم ہی شواہد سامنے لاتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیلی فوج نے الجزیرہ کے صحافیوں کو نشانہ بنایا ہو۔ اگست گزشتہ سال اسماعیل الغول پر اس وقت فضائی حملہ کیا گیا جب وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے۔ اس واقعے کی خوفناک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں ان کی بے سر لاش دیکھی جا سکتی تھی۔ اس حملے میں کیمرہ مین رامی الرفی اور ایک کمسن لڑکا جو سائیکل پر گزر رہا تھا، بھی ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیلی فوج نے اس وقت بھی دعویٰ کیا تھا کہ الغول حماس کے سات اکتوبر 2023 کے حملوں میں شریک تھے، جسے الجزیرہ نے سختی سے رد کیا تھا۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق اکتوبر 2023 میں غزہ پر اسرائیلی فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک 186 صحافی مارے جا چکے ہیں، جو اس جنگ میں صحافی برادری کے لیے انتہائی خوفناک اعداد و شمار ہیں۔