بیروت میں ایرانی سیکرٹری اعلیٰ قومی سلامتی کونسل علی لاریجانی کے حالیہ دورے نے خطے میں سیاسی گرمی بڑھا دی ہے۔ یہ دورہ اس وقت سامنے آیا جب لبنانی حکومت نے ایک متنازعہ فیصلے کے تحت فوج کو حکم دیا کہ وہ سال کے اختتام تک حزب اللہ کے اسلحے کو اکٹھا کرنے کے لیے عملی منصوبہ وضع کرے۔ اس اقدام کو امریکہ کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور خدشات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ اسرائیل دوبارہ بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ گزشتہ تنازع میں حزب اللہ کو عسکری اور قیادتی سطح پر بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا، جس نے صورتحال کو مزید حساس بنا دیا۔
لبنان میں حزب اللہ اور اس کے اتحادی گروہ اس فیصلے کو کھلے عام مسترد کر چکے ہیں۔ تنظیم کی قیادت نے اس اقدام کو "عملاً غیر مؤثر” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مزاحمتی تحریک کے ہتھیار ضبط کرنا ایک سنگین حکومتی غلطی ہوگی۔ ایران نے بھی اس فیصلے پر سخت ردعمل دیا ہے۔ رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر برائے بین الاقوامی امور، علی اکبر ولایتی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ حزب اللہ کے اسلحے پر ہاتھ ڈالنا نہ صرف غیر دانشمندانہ ہے بلکہ یہ مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنے کی کوشش بھی ہے، جسے ایران کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔ ان کے بیان کو لبنان کے وزیر خارجہ نے "کھلی مداخلت اور ناقابل قبول” قرار دے کر مسترد کر دیا۔
ایران، جو کئی دہائیوں سے حزب اللہ کو مالی اور عسکری مدد فراہم کرتا آیا ہے، اس تنظیم کو مشرق وسطیٰ میں اپنے "محورِ مزاحمت” کا کلیدی ستون سمجھتا ہے۔ یہ محور عراق اور یمن میں موجود ایران کے حامی گروہوں کو بھی شامل کرتا ہے، جو اسرائیلی اثر و رسوخ کے خلاف سرگرم ہیں۔ لاریجانی کے بیروت پہنچنے سے پہلے انہوں نے بغداد میں ایرانی اور عراقی حکام کے درمیان سرحدی سلامتی کے تعاون پر مبنی ایک اہم معاہدے پر دستخط کیے۔ اس موقع پر سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مزاحمت خطے کے عوام کی اجتماعی شناخت کا حصہ ہے اور اس کا مقصد اپنی خودمختاری اور مفادات کا تحفظ ہے۔ ان کے مطابق یہ صلاحیت ہر قیمت پر محفوظ رہنی چاہیے۔
بیروت پہنچنے پر ہوائی اڈے پر حزب اللہ اور اس کی اتحادی تحریک امل کے وفود نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس موقع پر حزب اللہ کے متعدد حامی سڑک کنارے جمع تھے، جنہوں نے نعرے بازی کے ذریعے اپنے حمایت کے جذبات کا اظہار کیا۔ لاریجانی نے گاڑی سے اتر کر کچھ دیر کے لیے انہیں سلام بھی کیا، جس پر شرکاء نے خوشی کا اظہار کیا۔
پریس سے گفتگو کرتے ہوئے علی لاریجانی نے واضح کیا کہ ایران لبنانی عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے کہا، "اگر کسی دن لبنان کے عوام مشکلات سے دوچار ہوئے تو ہم ایران میں بھی اس درد کو محسوس کریں گے اور ہر حال میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران ہمیشہ لبنان کے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں رہے گا۔
بیروت میں قیام کے دوران لاریجانی کی ملاقاتیں صدر جوزف عون، پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری اور وزیر اعظم نواف سلام سے طے ہیں، جبکہ ایرانی سفارتخانے میں وہ لبنانی اور فلسطینی سیاسی شخصیات سے بھی ملاقات کریں گے۔ ان ملاقاتوں کا بنیادی مقصد خطے میں سیاسی اور سلامتی کے بحرانوں پر تبادلہ خیال اور مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنا بتایا جا رہا ہے۔