بھارتی رئیلٹی شو ‘کون بنے گا کروڑ پتی’ (KBC) کے یوم آزادی کے خصوصی ایپی سوڈ نے بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک ہلچل مچادی ہے۔ شو کے اس ایپی سوڈ میں، جہاں عام طور پر کروڑوں کی انعامی رقم جیتی جاتی ہے، اس بار سیاست، فوج اور قوم پرستی کے موضوعات نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔
اس خصوصی ایپی سوڈ میں امیتابھ بچن کے ساتھ تین حاضر سروس فوجی افسران کرنل صوفیہ قریشی, ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ اور کمانڈر پرینا دیوسھالی شریک ہوئے، جنہوں نے مبینہ طور پر ‘آپریشن سندور’ کے بارے میں بات کی، جو کہ ایک بھارتی فوجی کارروائی تھی جس کا مقصد پاکستان کے خلاف تھا۔
ایپی سوڈ کا آغاز کرنل صوفیہ قریشی کے ساتھ ہوا، جو ہاٹ سیٹ پر بیٹھ کر بات کر رہی تھیں۔ امیتابھ بچن سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاپاکستان یہ کرتا چلا آ رہا ہے، تو جواب دینا بنتا تھا سر، اسی لیے آپریشن سندور کو پلان کیا گیا۔اس پر امیتابھ بچن نے محض سر ہلا کر خاموش سے ردعمل دیا۔ اس بات کا پیغام ایک جنگی اقدام کی اہمیت اور فوجی کارروائی کی ضرورت پر زور دے رہا تھا، جو ان کے مطابق پاکستان کی سرگرمیوں کے جواب میں کی گئی تھی۔ اس کلپ کو جب سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا، تو اس نے فوراً تنازعہ کھڑا کر دیا۔
اس ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی سوشل میڈیا پر مختلف ردعمل دیکھنے کو ملے۔ پاکستانی صارفین نے اس پر سخت تنقید کی اور اسے "ڈرامائی بدلہ” قرار دیا۔ وہ طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "سندور بن گیا تندور”، یعنی فوجی آپریشن کی ناکامی کے بعد اب میڈیا میں اسے ایک تفریحی شو کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی صارفین نے مزید کہا کہ اس شو کے ذریعے بھارت کی جانب سے شکست کو چھپانے اور ایک مہم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دوسری طرف، بھارتی سوشل میڈیا پر بھی بہت سے صارفین نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا۔ ان میں سے بعض نے مودی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ فوجی وقار کو سیاسی بیانیہ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ایک بھارتی صارف نے لکھاکیا آپ نے کبھی کسی سنجیدہ ملک میں فوجی کارروائی کے بعد اس طرح کی بات دیکھی ہے؟ ایک حاضر سروس افسر کو گیم شو پر اس کارروائی کو پروپیگنڈا بنانے کی اجازت دینا ایک بدترین مثال ہے۔
کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ قدم ایک اسکرپٹڈ منصوبہ تھا جس کا مقصد مودی حکومت کے قوم پرستی کے بیانیے کو مزید تقویت دینا تھا۔ ایک اہم سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا فوج اور تفریح کا یہ امتزاج صحیح ہے؟ کیا اس طرح کے پروگرام میں فوجی کارروائیوں کا تذکرہ کرنا مناسب ہے؟
پروفیسر راجیو مہاترے کا کہنا ہے کہ یہ عمل پیشہ ورانہ اور اخلاقی طور پر خطرناک ہو سکتا ہے۔ جب آپ فوجی آپریشنز کو ایک تفریحی شو میں پیش کرتے ہیں، تو اس سے قوم کے لیے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
بعض سوشل میڈیا تبصرہ نگاروں نے اس واقعہ کو نریندر مودی کی PR مہم کا حصہ قرار دیا، جس کا مقصد جنگی جذبات کو کیش کرنا تھا۔امیتابھ بچن کا اس تنازعے میں خاموش رہنا بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا وہ محض ایک میزبان کے طور پر غیر جانبدار رہنے کی کوشش کر رہے تھے یا وہ بھی تعلقات عامہ کا حصہ بن گئے؟ کئی لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ایک قومی آئیکون کو اس قسم کی سیاسی اجارہ داری کا حصہ بننا چاہیے؟
ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ یہ حیرت انگیز ہے کہ ایک عالمی شہرت یافتہ شخصیت جیسے امیتابھ بچن کو اس پروپیگنڈا میں شامل کیا گیا، اور انہوں نے اس معاملے پر کوئی واضح ردعمل نہیں دیا۔یہ واقعہ ایک نیا سوال کھڑا کرتا ہے کہ فوج، سیاست اور تفریحی میڈیا کا امتزاج کس طرح خطرناک ہو سکتا ہے۔
بھارت میں اب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کس طرح مذہبی جذبات اور قوم پرستی کے بیانیے کو میڈیا کے ذریعے بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ اس شو نے ثابت کر دیا کہ جب میڈیا، فوج اور سیاست کا یہ امتزاج ہوتا ہے، تو اس سے نہ صرف قوم کی سوچ پر اثر پڑتا ہے بلکہ اس کے مستقبل کے سیاسی اثرات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
KBC کے اس ایپی سوڈ نے انڈیا کے میڈیا منظر نامے کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ یہ شو اب صرف ایک رئیلٹی شو نہیں رہا، بلکہ سیاست، فوج اور بیانیے کی جنگ کا میدان بن چکا ہے۔سوشل میڈیا پر اس شو کی ناقابل فراموش منظر کشی کے بعد، بھارتی حکومت اور فوج کے حوالے سے عوامی خیالات میں ایک نیا تناؤ جنم لے چکا ہے۔
کیا یہ وقت آ گیا ہے کہ بھارتی میڈیا اور فوجی بیانیے کو سیاست سے الگ رکھا جائے؟ یہ سوال اب بھارتی سیاست دانوں، عوامی رائے سازوں اور میڈیا کے اہلکاروں کے سامنے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔