فرانس نے مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر ایک بار پھر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے ان منصوبوں سے باز رہے جن کے تحت ہزاروں نئی رہائشی کالونیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ فرانسیسی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف عالمی برادری کے اجتماعی مؤقف کے برخلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی اور سنگین خلاف ورزی کے زُمرے میں بھی آتا ہے۔
ترجمان نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے کے متنازعہ ترین خطے میں 3,400 گھروں کی تعمیر کے فیصلے کو پیرس حکومت سخت ترین انداز میں مسترد کرتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسا قدم خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بھڑکائے گا اور کسی بھی قسم کی سیاسی مفاہمت کے امکانات کو کمزور کر دے گا۔
عالمی سطح پر کئی ممالک اور سفارتی ادارے بارہا اس منصوبے کے خلاف آواز بلند کر چکے ہیں، جن کا مؤقف ہے کہ "ای ون” کے نام سے معروف یہ تعمیراتی اسکیم مستقبل میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ بالخصوص اس لیے کہ اس پراجیکٹ کے ذریعے مشرقی یروشلم کو مغربی کنارے کے باقی حصوں سے کاٹ دیا جائے گا، جو فلسطینی عوام کی ایک متحد اور متصل ریاست کی دیرینہ اُمیدوں کو دھندلا دے گا۔
فرانس نے اپنے بیان میں زور دیا کہ اسرائیل کو ایسے اقدامات ترک کر دینے چاہئیں جو دو ریاستی حل کے امکانات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ عالمی برادری کی مشترکہ خواہش ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے اسرائیلی اور فلسطینی فریقین مذاکرات کی میز پر واپس آئیں۔ مگر اس قسم کی غیر قانونی تعمیرات اور قبضے کی پالیسی نہ صرف ان مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں بلکہ پورے خطے کے استحکام کو بھی غیر محفوظ بنا رہی ہیں۔
اسرائیل کے فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرانس نے یہ واضح کر دیا کہ وہ اس معاملے پر خاموش نہیں رہ سکتا، کیونکہ یہ مسئلہ صرف اسرائیل اور فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کی امن کی کوششوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ فرانس کا مؤقف ہے کہ عالمی قوانین اور قراردادوں کو پسِ پشت ڈال کر یکطرفہ فیصلے کرنا خطے کے لیے خطرناک ثابت ہوگا اور بین الاقوامی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی چیلنج کرے گا۔