سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان 18 نومبر کو واشنگٹن کے سرکاری دورے پر وائٹ ہاؤس جائیں گے، جہاں ان کی ملاقات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے متوقع ہے۔ یہ ملاقات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کی عکاسی کرے گی، جس میں دفاعی تعاون، جدید ٹیکنالوجی کی شراکت اور معاشی تعلقات کو مزید وسعت دینے جیسے اہم موضوعات زیرِ غور آئیں گے۔
یہ دورہ نہ صرف علامتی حیثیت رکھتا ہے بلکہ سفارتی اور تزویراتی اعتبار سے بھی خاصا اہم سمجھا جا رہا ہے۔ امریکا کے لیے سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ میں ایک کلیدی شراکت دار ہے، جبکہ ریاض کے لیے یہ موقع عالمی سطح پر اپنی بڑھتی ہوئی معاشی و تکنیکی حیثیت کو مستحکم کرنے اور ویژن 2030 کے اہداف کے حصول میں مدد دینے کا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ رواں سال صدر ٹرمپ کے دورۂ ریاض کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 140 ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے طے پائے تھے، جن میں دفاع، توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبے شامل تھے۔ اب توقع کی جا رہی ہے کہ واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات ان معاہدوں کو عملی شکل دینے کی سمت ایک بڑا قدم ثابت ہوگی۔
دونوں رہنما دفاعی تعاون، سائبر سکیورٹی، مصنوعی ذہانت (AI)، اور سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی جیسے اہم موضوعات پر تبادلۂ خیال کریں گے۔ سعودی عرب اپنی معیشت کو تیل پر انحصار سے نکالنے اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ترقی دینے کے لیے ویژن 2030 کے تحت بھرپور اقدامات کر رہا ہے۔
حال ہی میں سعودی کمپنی ’ہیومین‘ اور امریکی ادارے ’کوالکوم ٹیکنالوجیز‘ کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طے پایا، جس کا مقصد ایک ایسا نیا مصنوعی ذہانت کا پلیٹ فارم قائم کرنا ہے جو دنیا بھر میں جدید ترین ڈیٹا پراسیسنگ اور کلاؤڈ ٹیکنالوجی فراہم کرے۔ یہ منصوبہ سعودی عرب کے اس عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کو مصنوعی ذہانت اور جدید کمپیوٹنگ کا مرکز بنانا چاہتا ہے۔
دفاعی میدان میں بھی پیش رفت متوقع ہے۔ دونوں ممالک ایک نئے دفاعی معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں جس کے تحت جدید امریکی ہتھیاروں اور عسکری تربیت تک سعودی عرب کی رسائی میں اضافہ کیا جائے گا۔ ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف تعاون، انٹیلی جنس شیئرنگ اور علاقائی استحکام کے لیے مشترکہ اقدامات پر بھی غور ہو گا۔
توانائی کے شعبے میں بھی یہ دورہ نئی راہیں کھول سکتا ہے۔ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان قابلِ تجدید توانائی، کاربن کیپچر اور گرین ہائیڈروجن جیسے شعبوں میں شراکت کے امکانات پر بات ہوگی۔ سعودی عرب پہلے ہی صاف توانائی کے بڑے منصوبے شروع کر چکا ہے اور وہ امریکی مہارت سے فائدہ اٹھا کر اپنی ماحولیاتی اور معاشی اصلاحات کو مزید مؤثر بنانا چاہتا ہے۔
امکان ہے کہ دونوں رہنما مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی منظرنامے پر بھی گفتگو کریں گے۔ امریکا اس بات کا خواہاں ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں شامل ہو۔ تاہم سعودی قیادت نے ہمیشہ اس مؤقف پر زور دیا ہے کہ کسی بھی باضابطہ تعلق سے قبل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے واضح اور قابلِ عمل پیش رفت ضروری ہے۔
واشنگٹن کے تجزیہ کاروں کے مطابق، صدر ٹرمپ کی یہ نئی سفارتی کوشش امریکا کی مشرقِ وسطیٰ حکمتِ عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔ واشنگٹن چاہتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنا کر چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جائے۔
دوسری جانب ریاض کے لیے امریکا کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنا اس کی طویل المیعاد پالیسیوں کے عین مطابق ہے۔ امریکا سعودی عرب کا سب سے بڑا دفاعی اور تکنیکی شراکت دار ہے، اور ولی عہد کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد اور اشتراک کے نئے باب کی نشاندہی کرتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں سعودی عرب نے عالمی سطح پر ایک متوازن خارجہ پالیسی اپنائی ہے، جس کے تحت وہ مشرقی اور مغربی دونوں طاقتوں کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔ تاہم امریکا کے ساتھ اس کا رشتہ اب بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اور یہی تعلق سعودی ترقی کے لیے بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔
یہ ملاقات ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب سعودی عرب ویژن 2030 کے تحت اپنی معیشت کو تیزی سے متنوع بنا رہا ہے۔ صنعتی شعبے، انفراسٹرکچر، اور سماجی اصلاحات میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، اور ان کے لیے عالمی تعاون ناگزیر ہے۔
امریکا میں بھی یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ کی سب سے متحرک معیشت بن چکا ہے۔ اس کے امریکی معیشت میں اربوں ڈالر کے سرمایہ کاری منصوبوں نے ہزاروں امریکیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔
اس ملاقات میں سیمی کنڈکٹر صنعت پر بھی تفصیلی بات چیت متوقع ہے۔ سعودی عرب اپنی مقامی چِپ مینوفیکچرنگ صلاحیت بڑھانے کا خواہاں ہے، اور اگر امریکی کمپنیاں جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی پر رضامند ہو جاتی ہیں تو یہ سعودی معیشت کے لیے ایک تاریخی سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ ملاقات سیاسی اعتبار سے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ دورہ ان کی کئی سالوں بعد امریکا میں پہلی بڑی مصروفیت ہو گی، جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔
دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام پہلے ہی ملاقات کے نکات پر مشاورت کر رہے ہیں، اور امکان ہے کہ کئی اہم معاہدوں کا اعلان اس دورے کے بعد کیا جائے گا۔
18 نومبر کو واشنگٹن میں ہونے والی یہ ملاقات عالمی توجہ کا مرکز بنے گی۔ مشرقِ وسطیٰ کے سب سے بااثر رہنما اور دنیا کے طاقتور ترین صدر کے درمیان ہونے والی بات چیت مستقبل کی عالمی سیاست اور خطے کے طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
سعودی عرب اور امریکا کے لیے یہ ملاقات محض ایک رسمی موقع نہیں، بلکہ باہمی اعتماد، اقتصادی تعاون، دفاعی تعلقات اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے نئے دور کا آغاز ہے۔ یہ دورہ ممکنہ طور پر 21ویں صدی میں سعودی–امریکی تعلقات کی ایک نئی بنیاد رکھے گا، جس کے اثرات آنے والے کئی برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
