پاکستان کی اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی دستیابی کے حوالے سے مختلف اور متضاد آرا سامنے آنے کے بعد عوام، طلبہ، بیرونِ ملک سفر کرنے والے مسافروں اور کاروباری حلقوں میں تشویش کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ کئی شہریوں اور تاجروں کا کہنا ہے کہ انہیں اوپن مارکیٹ سے مطلوبہ مقدار میں ڈالر حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ دوسری جانب سرکاری حلقے مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ عام شہریوں کے لیے ڈالر کی فراہمی بدستور برقرار ہے۔
اس صورتحال پر وضاحت کرتے ہوئے ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قلت درحقیقت ان افراد کے لیے ہے جو بغیر اجازت کاروباری مقاصد کے لیے بڑی مقدار میں ڈالر خریدنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق بیرونِ ملک سفر کرنے والے مسافر، غیر ملکی تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبہ اور دیگر جائز ضروریات رکھنے والے افراد قانون کے مطابق ڈالر حاصل کر سکتے ہیں، اور حکومت کی پالیسی بھی انہی طبقات کی ضروریات کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنے پر مرکوز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ محدود دباؤ کے باوجود شہریوں کے لیے کرنسی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ اوپن مارکیٹ میں دباؤ کی اصل وجہ وہ عناصر ہیں جو قانونی اجازت کے بغیر کاروباری سرگرمیوں کے لیے ڈالر خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے باعث مارکیٹ میں وقتی قلت پیدا ہوتی ہے۔ ان کے مطابق یہی غیرقانونی طلب اوپن مارکیٹ میں عدم توازن کو جنم دے رہی ہے۔
دوسری جانب کراچی میں ایف آئی اے کی حالیہ کارروائیوں نے اس مسئلے کے ایک اور پہلو کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایف آئی اے کراچی زون نے غیرقانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث تین ملزمان—محمد رضا، احمد رضا اور محمد اویس—کو ایم اے جناح روڈ کراچی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق یہ ملزمان بغیر لائسنس کرنسی ایکسچینج کا کاروبار کر رہے تھے۔ کارروائی کے دوران ان کے قبضے سے پانچ ہزار امریکی ڈالر، 16 ہزار سے زائد یو اے ای درہم، ایک ہزار سے زائد سعودی ریال، 1200 سے زائد چینی یوآن، سات ہزار سے زائد افغانی اور نو لاکھ سے زائد پاکستانی روپے برآمد کیے گئے۔ اس کے علاوہ موبائل فونز، لیپ ٹاپس، رجسٹرز اور چیک بکس بھی قبضے میں لیے گئے، جو غیرقانونی لین دین کے شواہد کے طور پر استعمال کیے جائیں گے۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزمان برآمد ہونے والی کرنسی کے بارے میں حکام کو مطمئن نہیں کر سکے، جس کے بعد انہیں گرفتار کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے، جبکہ ان کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ڈیجیٹل شواہد بھی حاصل کر لیے گئے ہیں۔
ادھر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق 12 دسمبر 2025 تک ملک کے مجموعی زرِ مبادلہ کے ذخائر 21.089 ارب ڈالر ریکارڈ کیے گئے ہیں، جن میں سٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر 15.886 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے خالص ذخائر 5.202 ارب ڈالر شامل ہیں۔ اگرچہ یہ اعداد و شمار معیشت کے لیے مثبت اشارہ سمجھے جا رہے ہیں، تاہم ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ سرکاری ذخائر اور اوپن مارکیٹ کی صورتحال میں براہِ راست تعلق نہیں ہوتا۔
ماہرین کے مطابق سرکاری زرِ مبادلہ کے ذخائر بنیادی طور پر بین الاقوامی ادائیگیوں، قرضوں کی واپسی اور درآمدی ضروریات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب زیادہ تر تجارتی اور کاروباری لین دین سے جڑی ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ ممکن ہے کہ ذخائر میں اضافے کے باوجود اوپن مارکیٹ میں فوری بہتری نظر نہ آئے۔
کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈالر کی محدود دستیابی درآمدات، صنعتی پیداوار اور قیمتوں پر منفی اثر ڈال رہی ہے، جبکہ غیرقانونی کرنسی ایکسچینج کی سرگرمیاں مارکیٹ میں دباؤ کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ سینیئر صحافی وکیل الرحمنٰ کے مطابق ایف آئی اے کی کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ غیرقانونی سرگرمیاں اوپن مارکیٹ کے دباؤ کی بڑی وجہ ہیں، تاہم سرکاری موقف یہ ہے کہ عام شہریوں، طلبہ اور مسافروں کے لیے ڈالر کی فراہمی برقرار ہے اور یہ اقدامات مارکیٹ کی شفافیت اور معاشی استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔
