قاضی فائز عیسٰ 13 ماہ تک پاکستان کے چیف جسٹس رہنے کے بعد آج ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔ ان کا یہ دور مختلف حیثیتوں یا تضادات کا حامل رہا ہے۔
وہ پاکستان کی واحد عدالتی شخصیت ہیں جن کی تقرری بھی بطور چیف جسٹس ہوئی اور اب وہ چیف جسٹس کی ہی حیثیت سے اپنا جوڈیشل کیرئیر ختم کر رہے ہیں۔
وہ 2009 میں بلوچستان کے چیف جسٹس بنے اور پھر 2024 میں پاکستان کے چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے۔
ایک سال اور ایک ماہ قبل جب وہ چیف جسٹس بنے تھے تب پاکستان کے حالات بہت ہنگامہ خیز تھے، عدلیہ میں واضح تقسیم تھی اور قاضی صاحب کے لیے سب سے بڑی مشکل بھی یہی تقسیم تھی۔
گو کہ اُن کا آخری عدالتی دور تنازعات سے بھرپور رہا لیکن انھوں نے تمام حالات کا سامنا نہایت جفاکشی سے کیا۔
جب انھوں نے حلف لیا تو اُن پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی چھاپ تھی لیکن جب وہ ریٹائرڈ ہوئے تو اُن پر اسٹیبلشمنٹ کا مُہرہ ہونے کا الزام ہے۔
اُنھیں بہت سے فیصلوں میں اپنے ساتھی ججوں کی حمایت بھی حاصل نہیں ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود وہ مضبوطی سے اپنے فیصلوں پر قائم رہے۔
مبارک ثانی کیس میں انھوں نے قادیانیوں کے متعلق پرچار کا ایک فیصلہ دیا تھا لیکن علماء کے دلائل سُننے کے بعد انھوں نے اپنے اس فیصلے سے رجوع کرلیا تھا، اس پر پاکستان کے مذہبی حلقوں میں ان کی تحسین کی گئی۔
قانونی حلقوں کے علاوہ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں بھی اُن پر تنقید کی جاتی رہی ہے، خاص طور پر تحریک انصاف کے انتخابی نشان بلے کی واپسی کے فیصلے پر، انھیں کافی تنقید کا سامنا رہا۔
ایک بات جس پر اکثر سیاسی، سماجی، قانونی اور صحافتی حلقوں میں قاضی فائز عیسی کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے وہ اُن کی بے لچک اور سادہ شخصیت ہے۔
جہاں وہ عدالتی کاروائیوں میں کسی ملامت کی پروا کیے بغیر فیصلے سُناتے رہے وہیں وہ بغیر پروٹوکول عوامی مقامت پر جاتے رہے۔
اسلام آباد کی ایک ڈونٹ شاپ پر اُن کے ساتھ کی جانے والی بدتمیزی کے باوجود وہ اپنے ساتھ ہٹو بچو والے بڑے پروٹولز رکھنے کی بجائے اکیلے سفر کرتے رہے۔
قاضی فائز عیسیٰ عموما سُپریم کورٹ بھی پیدل ہی آیا جایا کرتے تھے، تاہم پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے انھیں بدستور شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قاضی فائز عیسیٰ ایک بے باک اور قانون پسند چیف جسٹس تھے۔ اُن کی طبیعت میں موجود سادگی اور سنجیدگی انھیں مزید ممتاز بناتی رہی ہے۔