پاکستان کی وزارت داخلہ نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں، بشمول افغان شہریوں، کو 31 مارچ سے پہلے ملک چھوڑنے کی ہدایت دی ہے۔
آج جاری کردہ ایک بیان میں وزارت داخلہ نے واضح کیا کہ اگر مقررہ تاریخ تک ان افراد نے خود سے واپسی اختیار نہ کی تو حکومت انہیں بے دخل کرنے کے لیے سخت کارروائی کرے گی۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے خلاف پہلے ہی ایک بڑے پیمانے پر انخلا کی مہم جاری ہے۔
حکومت نے گزشتہ سال 2023 میں یہ مہم شروع کی تھی، جس کا مقصد ان غیر ملکیوں کو ملک سے نکالنا تھا جو کسی بھی قانونی دستاویز کے بغیر یہاں رہائش پذیر تھے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت پاکستان میں 8 لاکھ سے زائد ایسے افغان شہری موجود ہیں جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈز ہیں، جبکہ تقریباً 13 لاکھ افغان مہاجرین ایسے ہیں جو حکومت پاکستان کے پاس باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں اور ان کے پاس ملک میں قیام کے باضابطہ اجازت نامے (پی او آرز) موجود ہیں۔
تاہم، وزارت داخلہ کے حالیہ بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا پروف آف ریزیڈنس کارڈ رکھنے والے افراد بھی اس نئی ڈیڈ لائن کی زد میں آئیں گے یا نہیں۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کئی دہائیوں سے مقیم ہے۔
گزشتہ 40 برس کے دوران پاکستان نے تقریباً 28 لاکھ افغان شہریوں کو پناہ دی ہے، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے اور اب امریکہ یا دیگر مغربی ممالک میں آباد ہونے کے انتظار میں ہیں۔
پاکستانی حکام کا مؤقف ہے کہ ملک میں مقیم بعض افغان باشندے دہشت گردی اور جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں، اور ماضی میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری انہی پر عائد کی جاتی رہی ہے۔
تاہم، افغانستان کی عبوری حکومت ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کرتی ہے۔
وزارت داخلہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان ہمیشہ ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر اپنے فرائض اور بین الاقوامی وعدے پورے کرتا آیا ہے، لیکن ملک میں موجود تمام غیر ملکیوں کو اب قانونی تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔
حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال انخلا کی مہم کے آغاز کے بعد سے اب تک 8 لاکھ سے زائد افغان باشندے اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔
حکومت کے اس اقدام پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی اداروں کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔
بعض حلقے افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صرف غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائی کر رہی ہے تاکہ ملک کے امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے اور قانونی عملداری قائم کی جا سکے۔