وزیراعظم شہباز شریف کی منظوری کے بعد کابینہ ڈویژن کی جانب سے باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے، جس میں نئے وفاقی وزراء کو مختلف قلم دان سونپے گئے ہیں۔
اس فیصلے کے تحت رانا مبشر اقبال کو ’پبلک افیئرز یونٹ‘ کی وزارت کا چارج دیا گیا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکاری طور پر کابینہ ڈویژن میں ایسی کسی وزارت کا وجود موجود نہیں ہے۔
اس حوالے سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر یہ وزارت کیا کردار ادا کرے گی اور اس کے دائرہ کار میں کون سے اختیارات شامل ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق، وزیراعظم آفس میں ایک مخصوص شعبہ پہلے سے قائم ہے جسے پبلک افیئرز اینڈ گریونسز ونگ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہی ونگ اب پبلک افیئرز یونٹ کے نام سے کام کرے گا، جس کی ذمہ داریاں رانا مبشر اقبال کو سونپ دی گئی ہیں۔
تاہم، اس معاملے میں ابہام برقرار ہے کیونکہ خود رانا مبشر اقبال بھی اس بارے میں مکمل طور پر واضح نہیں ہیں کہ ان کے دائرہ کار میں کون سی ذمہ داریاں آئیں گی۔
اُردو نیوز کی جانب سے جب وفاقی وزیر رانا مبشر اقبال سے اس بابت رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے بتایا کہ تاحال یہ طے نہیں کیا گیا کہ پبلک افیئرز یونٹ میں کون کون سے محکمے شامل ہوں گے اور یہ کن امور کا احاطہ کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ سرکاری ادارے اس کے تحت لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ اگلے چند دنوں میں کر لیا جائے گا۔
ان کے مطابق، انہیں خود ابھی تک اس بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں کہ اس نئی وزارت کے تحت کون کون سے امور آئیں گے اور یہ کس طرح فعال ہو گی۔
اس حوالے سے معروف سیاسی تجزیہ کار طاہر خلیل نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ کابینہ ڈویژن میں ایسی کوئی وزارت پہلے سے موجود نہیں ہے، اس لیے ضروری ہو گا کہ حکومت وضاحت کرے کہ یہ نیا شعبہ کیا کردار ادا کرے گا۔
انہوں نے تاریخی تناظر میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ 1973 کے آئین سے قبل جب ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت سنبھالی تھی، تب معراج محمد خان کو وزیر برائے عوامی امور نامزد کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تصور نیا نہیں ہے، بلکہ ماضی میں بھی ایسی وزارتیں قائم کی جا چکی ہیں، جیسا کہ نواز شریف کے دور حکومت میں امیر مقام کو بھی اسی نوعیت کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
دوسری طرف، کابینہ ڈویژن کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی رانا غلام قادر کا کہنا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض وزراء کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے نئی ذمہ داریاں تخلیق کی جا رہی ہیں۔
ان کے مطابق، اس وقت کابینہ ڈویژن میں پبلک افیئرز یونٹ نام کی کوئی وزارت موجود نہیں ہے۔
تاہم، انہوں نے اس امکان کا اظہار کیا کہ یہ درحقیقت وزیراعظم آفس کے ایک ونگ کی نئی شکل ہو سکتی ہے، جسے اب باضابطہ طور پر ایک وفاقی وزارت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم آفس میں عمومی طور پر دو ونگ موجود ہوتے ہیں، ایک انٹرنل اور دوسرا ایکسٹرنل، اور بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ایکسٹرنل ونگ کے امور کو اب پبلک افیئرز یونٹ کے تحت لے آیا گیا ہے، تاکہ عوامی مسائل سے متعلق معاملات کو زیادہ موثر انداز میں حل کیا جا سکے۔
تاریخی حوالوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ماضی میں بھی مختلف حکومتوں کے ادوار میں عوامی شکایات سننے اور ان کے ازالے کے لیے خصوصی سیل قائم کیے جاتے رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، سابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی ایک ایسے ہی سیل کے انچارج رہ چکے ہیں، جب کہ عمران خان کے دور حکومت میں بھی وزیراعظم آفس میں عوامی مسائل کے حل کے لیے ایک خصوصی شکایات سیل قائم کیا گیا تھا۔
یہ صورتحال ابھی تک مکمل طور پر واضح نہیں ہے، لیکن آنے والے دنوں میں اس معاملے میں مزید پیش رفت متوقع ہے۔
جس سے معلوم ہو سکے گا کہ پبلک افیئرز یونٹ کس حد تک فعال ہوگا اور اس کے تحت کون کون سے اقدامات کیے جائیں گے۔