امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ یوکرین میں جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر ہونے والی بات چیت کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات ایک نہایت اہم موقع فراہم کرتی ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ یہ تباہ کن اور خونی جنگ بالآخر ختم ہو جائے گی۔
ان کے مطابق تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں تاکہ بے گناہ جانوں کا مزید نقصان نہ ہو۔
کریملن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکہ کے سفیر سٹیو وٹکوف کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی، جس میں جنگ بندی کے مجوزہ معاہدے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
روسی حکومت کے مطابق وہ امریکہ کی محتاط انداز میں کیے جانے والے امن کی کوششوں سے متفق ہے، لیکن اس حوالے سے کچھ نکات مزید غور طلب ہیں۔
روس نے عندیہ دیا کہ وہ امن عمل کی حمایت کرتا ہے لیکن اس کے لیے مخصوص شرائط طے کی جائیں گی۔
ادھر یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روس کے رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ صدر پوتن حقیقت میں جنگ بندی کے بجائے مذاکرات کے ذریعے جنگ کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
زیلنسکی کا کہنا تھا کہ روس جان بوجھ کر ایسی شرائط عائد کر رہا ہے جو انتہائی مشکل اور ناقابل قبول ہیں، تاکہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکیں اور جنگ مزید جاری رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ روس چاہتا ہے کہ دنیا ان کی چالوں میں الجھ جائے جبکہ ان کی فوجیں یوکرین میں معصوم شہریوں کو قتل کرتی رہیں۔
زیلنسکی نے ایک سخت بیان میں کہا کہ پوتن اس جنگ کو ختم نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اگر یہ جنگ ختم ہو گئی تو ان کے اقتدار اور سیاسی طاقت کو شدید نقصان پہنچے گا۔
ان کے مطابق روس بے معنی مذاکرات کے ذریعے وقت ضائع کر رہا ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف دنیا کو دھوکہ دینا ہے۔
برطانوی رہنما سر کیئر سٹارمر نے بھی روس کے رویے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق روسی صدر کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ جنگ بندی کی تجاویز کے ساتھ سیاسی کھیل کھیلیں اور امن عمل کو کمزور کریں۔
وائٹ ہاؤس کا موقف ہے کہ تمام فریقین اس وقت قیام امن کے سب سے قریب پہنچ چکے ہیں، اور اگر عالمی طاقتیں سنجیدگی کے ساتھ کوشش کریں تو یہ جنگ جلد ختم ہو سکتی ہے۔