لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے وفاقی حکومت، نادرا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹس کو سوشل میڈیا سے شہرت پانے والے ارشد خان المعروف ’چائے والا‘ کی شناختی دستاویزات بلاک کرنے کے خلاف دائر درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے 17 اپریل کے لیے جواب طلب کر لیا ہے۔
مردان سے تعلق رکھنے والے ارشد خان، جن کی 2016 میں چائے بناتے ہوئے ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی اور جنہیں پاکستان کا ’بلیو آئیڈ بوائے‘ کہا جانے لگا، نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ نادرا اور دیگر اداروں کی جانب سے ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی بندش غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
ارشد خان کی جانب سے معروف وکیل بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی نے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ارشد خان پاکستانی خواب کی جیتی جاگتی مثال ہیں، جنہوں نے عاجزانہ پس منظر سے بین الاقوامی شناخت حاصل کی۔ لیکن اب، ریاستی اداروں کی جانب سے ان کی شہریت پر سوال اٹھا کر ان کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دیا گیا ہے۔
بیرسٹر گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ نادرا کی جانب سے 1978 سے قبل پاکستان میں رہائش کا ثبوت طلب کرنا بدنیتی پر مبنی اقدام ہے، حالانکہ ارشد خان کی پیدائش پاکستان میں ہوئی اور ان کے خاندان کے شہریت سے متعلق تمام قانونی دستاویزات موجود ہیں۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 4، 9، 14 اور 18 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ارشد خان کو روزگار، عزت اور قانونی تحفظ کا حق حاصل ہے۔
اس موقع پر عدالت کو اسلام آباد، سندھ اور لاہور ہائی کورٹ کے متعدد فیصلوں سے آگاہ کیا گیا، جن میں بغیر مناسب قانونی کارروائی کے شناختی دستاویزات کو معطل یا منسوخ کرنا غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔نادرا کے لا افسر اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے ابتدائی طور پر درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ درخواست گزار اپنی پاکستانی شہریت کے شواہد پیش نہیں کر سکا۔
تاہم، جسٹس جواد حسن نے معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نادرا اور امیگریشن حکام کو ارشد خان کے خلاف کسی بھی قسم کی سخت یا جبری کارروائی سے روک دیا اور متعلقہ افسران کو ہدایت کی کہ وہ 17 اپریل کو ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوں۔درخواست گزار کی طرف سے ایڈووکیٹ فاطمۃ الزہرہ بٹ کے توسط سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ ارشد خان پاکستان میں افغان پناہ گزین والدین کے ہاں پیدا ہوئے اور ان کے پاس حکومت پاکستان کا جاری کردہ برتھ سرٹیفکیٹ بھی موجود ہے، لہٰذا پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کی دفعہ 4 کے تحت وہ شہریت کے مستحق ہیں۔
عدالت نے نادرا کو ایک ماہ میں ارشد خان کی شہریت کے دعوے پر فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ قانون کے مطابق اور شفاف انداز میں عبوری حکم نامے کے ذریعے کیا جائے۔یہ کیس نہ صرف ارشد خان کی شہریت بلکہ پاکستان میں پیدا ہونے والے ہزاروں بے شناخت افراد کے لیے ایک قانونی مثال بن سکتا ہے، جنہیں برسوں سے ریاستی نظام میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔