سندھ میں متنازعہ نہری منصوبے پر عمل درآمد کے خلاف احتجاجی لہر اب شدت اختیار کر چکی ہے، جو مسلسل چوتھے روز بھی جاری ہے۔
خیرپور سے لے کر کراچی، حیدرآباد، کندھ کوٹ اور کاٹھور تک مختلف شہروں میں وکلا، قوم پرست جماعتوں، تاجر برادری اور خواتین کی تنظیمیں سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔
سڑکوں کی بندش کے باعث سندھ اور پنجاب کو جوڑنے والی مرکزی شاہراہوں پر ٹریفک مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے اور شہری سخت مشکلات کا شکار ہیں۔
سب سے شدید صورتحال خیرپور کے ببرلو بائی پاس پر دیکھنے میں آئی، جہاں ملک بھر سے آئے وکلا گزشتہ چار دن سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
ان مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ دریائے سندھ پر مجوزہ چھ نئی نہریں سندھ کے پانی کے حق پر حملہ ہیں، جو زرعی خود کفالت کو شدید متاثر کریں گی۔
دھرنے کی وجہ سے شاہراہ پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ چکی ہیں، اور متعدد ڈرائیور و مسافر پانی، خوراک اور بنیادی سہولیات کے بغیر چار دن سے پھنسے ہوئے ہیں۔
کئی گاڑیاں قربانی کے جانور لے جا رہی تھیں، جنہیں کراچی سمیت دیگر مویشی منڈیوں تک پہنچانا تھا، مگر مسلسل تعطل کے باعث جانوروں کی صحت کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
دوسری طرف، کاٹھور کے مقام پر کراچی حیدرآباد موٹروے (ایم-9) بھی بند کر دی گئی، جہاں قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں نے وفاق کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور نہری منصوبہ فوری روکنے کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے خبردار کیا کہ اگر ان کا مطالبہ نہ مانا گیا تو وہ پورے سندھ کو بند کر دیں گے۔
کندھ کوٹ میں بھی صورتحال کشیدہ رہی، جہاں آل پارٹیز موومنٹ اور وکلا نے انڈس ہائی وے پر گولا موڑ کے مقام پر دھرنا دے رکھا ہے، جو دس گھنٹوں سے جاری ہے۔
اس دھرنے کی وجہ سے ایمبولینسز بھی ٹریفک میں پھنسی رہیں، جس سے مریضوں کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
مقامی سماجی کارکنان نے بتایا کہ کئی گاڑیوں میں موجود کھانے پینے کا سامان خراب ہونے کے قریب ہے۔
سندھ حکومت نے احتجاج کرنے والوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پرامن مظاہروں کا حق ضرور استعمال کریں، لیکن سڑکیں بند نہ کریں تاکہ عام شہریوں، مریضوں، مزدوروں اور طلبہ کی زندگی متاثر نہ ہو۔
وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وفاقی حکومت کو سندھ کے تحفظات کو فوری اور سنجیدہ انداز میں سننا چاہیے۔
ادھر وفاقی حکومت کی طرف سے تاحال اس نہری منصوبے پر کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا، جس کی وجہ سے سندھ کے سیاسی، سماجی اور عوامی حلقوں میں بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر معاملہ فوری حل نہ ہوا تو یہ احتجاج صرف سڑکوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ بین الصوبائی کشیدگی کو ایک نئے مرحلے میں داخل کر سکتا ہے۔