سپریم کورٹ آف پاکستان نے خواتین کے جائیدادی حقوق کے حوالے سے ایک اہم نظیر قائم کرتے ہوئے اپنے تازہ فیصلے میں واضح طور پر کہا ہے کہ نکاح کے موقع پر دلھن کو دی گئی تمام اشیاء خواہ وہ روایتی جہیز ہوں، یا شادی کے موقع پر دیے گئے برائیڈل گفٹس یا دیگر تحائف وہ اس کی ذاتی اور مکمل ملکیت شمار ہوں گی، جن پر شوہر یا اس کے خاندان کا کوئی قانونی یا اخلاقی دعویٰ نہیں بنتا۔
یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل احمد عباسی نے دیا۔
مقدمہ ایک طلاق یافتہ خاتون شمسہ اصغر کی جانب سے دائر کیا گیا تھا جنہوں نے نکاح کے بعد ملنے والے جہیز کی واپسی اور ’نان نفقہ‘ کی ادائیگی کا دعویٰ کیا تھا۔
عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں ایک اہم قانونی اصول وضع کیا ہے کہ دلھن کو دی گئی تمام اشیاء اس کی غیر مشروط ملکیت ہیں، اور شادی ختم ہونے کے بعد بھی اس حق میں کوئی کمی نہیں آتی۔
شمسہ اصغر اور محمد ساجد کا نکاح فروری 2018 میں ہوا تھا، جس سے ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔
مگر ازدواجی تعلقات جلد خراب ہوئے اور انجام کار طلاق کی صورت اختیار کر گئے۔ طلاق کے بعد شمسہ اصغر نے فیملی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا، جس میں شوہر سے ماہانہ نفقہ اور جہیز کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔
ابتدائی عدالت نے بعض اشیاء کی واپسی کا حکم دیا، لیکن بعد ازاں دونوں فریقین نے اپیلیں دائر کیں۔
شوہر نے نفقہ کم کرانے کی استدعا کی، جبکہ بیوی نے جہیز کی مالیت بڑھانے کی درخواست دی۔
لاہور ہائی کورٹ نے بعد ازاں شوہر کی اپیل خارج کر دی، جس پر اس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ڈاؤری اینڈ برائیڈل گفٹس ایکٹ 1976 کا حوالہ دیتے ہوئے تین اصطلاحات کی وضاحت کی اول جہیز یعنی وہ تمام املاک جو والدین یا رشتہ دار شادی کے موقع پر دلھن کو دیتے ہیں دوم برائیڈل گفٹس یعنی وہ اشیاء جو دولہا یا اس کے والدین دلھن کو دیتے ہیں اور سوم، تحائف یعنی وہ چیزیں جو شادی کے موقع پر کسی بھی فریق کے خاندان کو دی جاتی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ان تینوں اقسام میں سے جو اشیاء براہِ راست دلھن کو دی جائیں، ان کی ملکیت صرف اور صرف دلھن کے پاس رہے گی۔
یہ بھی واضح کیا گیا کہ فیملی کورٹس کو صرف انہی اشیاء کی واپسی کا حکم دینے کا اختیار ہے جو دلھن کی ملکیت میں شمار ہوں، نہ کہ وہ اشیاء جو دلہا یا اس کے خاندان کو دی گئی ہوں۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اسلامی اصولوں اور آئین پاکستان کی روح کے مطابق خواتین کے جائیداد پر مساوی حق کی ضمانت دی گئی ہے، اور کسی بھی قانونی تشریح سے اگر اس حق میں کمی واقع ہو تو وہ آئین اور شریعت دونوں سے متصادم ہوگی۔
سپریم کورٹ نے اسلامی فقہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نکاح کے وقت دی گئی اشیاء صرف حق مہر کی صورت میں واجب ہیں، جب کہ جہیز ایک غیر ضروری معاشرتی رسم ہے جو اکثر اوقات خواتین کے استحصال، ذہنی دباؤ اور خاندانی دباؤ کا باعث بنتی ہے۔
اس لیے عدالت کا مقصد نہ تو اس رسم کی تائید ہے، نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی، بلکہ یہ یقینی بنانا ہے کہ جو اشیاء دلھن کو دی گئیں، ان پر صرف اس کا ہی حق ہو۔
عدالت نے خاتون کی جانب سے پیش کردہ جہیز کی فہرست کا تفصیلی جائزہ لیا اور یہ طے کیا کہ جو اشیاء دولہا یا اس کے گھر والوں کو دی گئیں، انہیں اس دعوے کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔
اسی بنا پر ان اشیاء کو حتمی فیصلے سے خارج کر دیا گیا، جبکہ باقی اشیاء کی واپسی سے متعلق ابتدائی عدالتوں کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔
اس اہم عدالتی فیصلے کو خواتین کے معاشی اور قانونی حقوق کے لیے ایک بڑی پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے، جو نہ صرف عدلیہ کے ترقی پسند رویے کی عکاسی کرتا ہے بلکہ آئندہ آنے والے وقتوں میں معاشرتی سطح پر جہیز کے غیر منصفانہ رواج کے خلاف مضبوط قانونی مثال بن سکتا ہے۔